جس لڑکی کو سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگ فالو کرتے تھے، جس کی ویڈیوز پر دل، لائکس اور ستائشی تبصرے کیے جاتے تھے وہی لڑکی جب دنیا سے رخصت ہوئی تو اس کے جنازے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد چند درجن بھی نہ پہنچی۔
7 لاکھ 50 ہزار سے زائد فالوورز رکھنے والی ثناء یوسف کے جنازے کا یہ منظر نہ صرف افسوسناک تھا بلکہ پورے ڈیجیٹل معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ تھا۔
یہ وہی لڑکی تھی جسے زندگی سے محبت تھی، جس نے حال ہی میں ایک ڈرامے میں کام کرنے کی پیش کش قبول کی تھی لیکن اس کی بے وقت اور پُراسرار موت نہ صرف سوالات اٹھا گئی بلکہ سوشل میڈیا کی کھوکھلی شہرت کا پردہ بھی چاک کر گئی۔
واضح رہے کہ دوسری جانب ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ ملزم عمر حیات نے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ فیصل آباد سے اسلام آباد رینٹ پر گاڑی لے کر آیا تھا نہ صرف ایک بار بلکہ دو مرتبہ۔ 29 مئی اور 2 جون کو اس نے فارچونر گاڑی کرائے پر لی مگر دونوں بار کرایہ ادا نہیں کیا۔ گرفتاری کے وقت اس کی جیب میں صرف چند سو روپے نکلے۔
عمر حیات خود کو “لینڈ لارڈ” کا بیٹا ظاہر کرتا تھا جبکہ حقیقت میں اس کا والد محض گریڈ 16 کا ریٹائرڈ ملازم ہے۔ ذرائع کے مطابق ملزم نے ثناء یوسف کی سالگرہ پر تحائف لے کر ملاقات کی کوشش کی لیکن انکار پر مشتعل ہو گیا۔
2 جون کی صبح 5 بجے وہ دوبارہ ثناء یوسف کے گھر کے باہر پہنچا، کئی گھنٹے انتظار کیا اور جب ملاقات نہ ہوئی تو اس نے گولی مار کر اسے قتل کر دیا۔ واردات کے بعد فرار ہوتے ہوئے وہ بائیک رائیڈ، پھر ٹیکسی اور آخر میں بس کے ذریعے واپس فیصل آباد چلا گیا۔
سینئر صحافی ہرمیت سنگھ کا کہنا ہے کہ مقتولہ قتل سے صرف ایک گھنٹہ قبل تک ان سے رابطے میں تھیں۔ ان کے مطابق پورے ہفتے کے دوران دونوں میں مسلسل رابطہ رہا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ جس عمارت میں ثناء یوسف رہتی تھیں، اس کے نچلے حصے میں کسی کی ذاتی رہائش تھی، اور بغیر اجازت کوئی اوپر نہیں جا سکتا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل کوئی جاننے والا ہی تھا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لڑکی جینا چاہتی تھی، لیکن ہمارا معاشرہ دکھ کے وقت بھی رحم نہیں کرتا، بلکہ نمک پاشی کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لاش کو پہلے نانی کے گھر اور پھر راتوں رات چترال منتقل کر دیا گیا، شاید کچھ گھریلو باتیں تھیں جنہیں چھپانے کی کوشش کی گئی۔
سب سے زیادہ افسوسناک پہلو وہ منظر تھا جب ثناء یوسف کی میت کو سپردِ خاک کیا جا رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر واہ واہ کرنے والے، ہر ویڈیو پر “کوئین” کہنے والے، انسٹاگرام پر دلوں کی بارش کرنے والے، سب غائب تھے۔ نہ کوئی ماتم کرنے والا، نہ آنکھ نم کرنے والا۔