کورنگی مویشی منڈی کی بندش، عدالتی حکم یا انتظامی دباؤ؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

(فوٹو؛ فائل)

کراچی کے علاقے کورنگی روڈ پر قائم کی گئی مویشی منڈی کا اچانک لائسنس منسوخ کر دیا جانا ایک نئی انتظامی اور قانونی بحث کو جنم دے رہا ہے۔ جہاں ایک طرف کراچی کمشنر آفس عدالت کے حکم کا حوالہ دے رہا ہے، وہیں منڈی منتظمین اسے کاروباری استحصال اور روزگار پر وار قرار دے رہے ہیں۔

منڈی کے منتظم سردار سہیل کے مطابق مویشی منڈی مکمل طور پر قانونی طریقہ کار سے قائم کی گئی۔ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (KMC) کی سرکاری نیلامی میں 70 لاکھ روپے کی بولی سے لائسنس حاصل کیا گیا، جس کی منظوری متعلقہ انتظامیہ، پولیس اور ضلع کورنگی کے افسران نے دی۔ لائسنس باقاعدہ طور پر 9 مئی کو جاری ہوا تھا۔

تاہم، کمشنر کراچی کی جانب سے اچانک منڈی کا لائسنس منسوخ کر دینا، عدالت کے حکم کی تعمیل میں کیا گیا فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر عدالت کا حکم پہلے سے موجود تھا تو منظوری ہی کیوں دی گئی؟ اور اگر لائسنس قانونی تھا، تو منسوخی کی بنیاد کیا بنی؟

کورنگی منڈی میں اس وقت 250 سے زائد تاجر اور کسان موجود ہیں، جنہوں نے پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوں سے جانور لا کر فروخت کے لیے رکھے ہیں۔ یہ منڈی نہ صرف عارضی معیشت کو سہارا دے رہی تھی بلکہ روزانہ ہزاروں شہریوں کو سہولت بھی فراہم کر رہی تھی۔

مویشی منڈی میں کھانے پینے کے اسٹالز، پارکنگ، اور ڈیجیٹل بینکنگ جیسی سہولیات موجود تھیں۔ اس کا اچانک بند کیا جانا صرف بیوپاریوں ہی نہیں بلکہ ان تمام افراد کے لیے بھی نقصان دہ ہے جو عیدالاضحیٰ کے لیے قربانی کے جانور خریدنے آتے ہیں۔

کراچی میں اس وقت سرکاری اجازت سے 14 مویشی منڈیاں قائم کی گئی ہیں، مگر شہریوں کی شکایات ہیں کہ ان منڈیوں میں جانوروں کی قیمتیں غیر معمولی حد تک بڑھ گئی ہیں۔ کورنگی منڈی کی بندش نے قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ پیدا کر دیا ہے۔

منڈی انتظامیہ نے سندھ ہائی کورٹ میں فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان کیا ہے اور چیف جسٹس سے مداخلت کی درخواست کی ہے۔ تاجر برادری کا مؤقف ہے کہ اگر عدالتی احکامات کی روشنی میں لائسنس منسوخ کیا گیا ہے، تو انہیں بھی اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔

یہ واقعہ ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ پاکستان میں قانونی اور انتظامی معاملات میں شفافیت کا فقدان ہے۔ ایک طرف ادارے لائسنس جاری کر رہے ہیں اور دوسری طرف عدالتی احکامات کی بنیاد پر وہی اجازت واپس لی جا رہی ہے۔ اس سے نہ صرف سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے بلکہ نچلے طبقے کے روزگار پر بھی کاری ضرب لگتی ہے۔

Related Posts