یمن کے مغربی علاقے میں واقع راس عیسیٰ ایندھن بندرگاہ پر امریکی فضائی حملے میں 38 افراد جاں بحق ہو گئے۔
یہ حملہ ان مہلک ترین حملوں میں سے ایک ہے جو امریکہ کی جانب سے یمن میں شروع کی گئی کارروائیوں کے دوران دیکھے گئے ہیں۔
المسیرہ ٹی وی کے مطابق ان حملوں میں 102 افراد زخمی بھی ہوئے۔ امریکی فوج کا کہنا ہے کہ یہ حملے حوثی عسکری گروہ کے ایندھن کے ذرائع کو کاٹنے کے لیے کیے گئے تھے جو اُن کے مطابق یمن کے عوام کے لیے تکلیف کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع (پنٹاگون) نے حوثیوں کی جانب سے بتائی گئی ہلاکتوں پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہاکہ “ان حملوں کا مقصد حوثیوں کی اقتصادی طاقت کو کمزور کرنا تھا، جو اپنے ہی ہم وطنوں پر ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں۔”
واضح رہے کہ امریکہ نے پچھلے مہینے حوثیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فضائی حملے شروع کیے تھے، اور کہا تھا کہ جب تک حوثی بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملے بند نہیں کرتے، کارروائیاں جاری رہیں گی۔
نومبر 2023 سے لے کر اب تک حوثیوں نے درجنوں ڈرون اور میزائل حملے کیے ہیں، جن کا نشانہ وہ بحری جہاز بناتے ہیں جو اسرائیل سے منسلک ہوں، یہ حملے انہوں نے غزہ میں جاری جنگ کے خلاف احتجاجاً کیے۔
ایک موقع پر غزہ میں دو ماہ کی جنگ بندی کے دوران حوثیوں نے بحری حملے روک دیے تھے تاہم جب اسرائیل نے دوبارہ غزہ پر حملے شروع کیے تو حوثیوں نے دوبارہ کارروائیاں شروع کرنے کا عندیہ دیا مگر تاحال کسی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
جمعرات کا حملہ ان مہلک ترین حملوں میں سے ایک ہے جو امریکہ کی جانب سے یمن میں اس وقت سے جاری ہیں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں مشرق وسطیٰ میں یہ سب سے بڑی فوجی کارروائی شروع کی گئی۔
مارچ کے مہینے میں، امریکی حملوں کے دو دن کے دوران، حوثی حکام کے مطابق 50 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔