پوپ فرانسس نے ہولی تھرسڈے، یعنی پاک جمعرات کے روز روم کی تاریخی ریجینا کوئلی جیل کا دورہ کیا۔ یہ اُن کی اُس دیرینہ روایت کا تسلسل ہے جس کا آغاز انہوں نے اپنے منصب کے ابتدائی دنوں میں کیا تھا یعنی معاشرے کے دھتکارے ہوئے اور محروم طبقے کے لوگوں کے قریب جانا۔
رواں برس، صحت کے مسائل کے باعث وہ “خُداوند کی آخری شام” کی عبادت اور “پاؤں دھونے” کی رسمی تقریب میں شریک نہ ہو سکے۔ تاہم، اس کے باوجود انہوں نے قیدیوں سے فرداً فرداً ملاقات کی، ان کی حوصلہ افزائی کی، اور انہیں تسبیح (روزری) اور پاک انجیل کے جیب سائز نسخے بطور تحفہ پیش کیے۔
اس موقع پر پوپ فرانسس نے کہا:”مجھے ہمیشہ ہولی تھرسڈے پر جیل آنا پسند رہا ہے تاکہ یسوع کی طرح قیدیوں کے پاؤں دھو سکوں۔ اس سال میں ایسا نہیں کر سکتا، مگر میں آپ کے قریب ہوں۔ میں آپ اور آپ کے خاندانوں کے لیے دعا کرتا ہوں۔”
تقریباً 70 قیدی، جو مختلف قومیتوں اور عمروں سے تعلق رکھتے تھے، نے پوپ فرانسس کا پرتپاک خیرمقدم کیا۔ جیل کی کھڑکیوں سے آوازیں گونج رہی تھیں:”ہمیں آزادی دو!”، “ہمارے لیے دعا کریں!”، “فلسطین کے لیے دعا کریں!”
پوپ نے جواباً ہاتھ ہلایا اور انگوٹھا بلند کرتے ہوئے عاجزانہ انداز میں کہا:”میرے لیے بھی دعا کرنا!”
یاد رہے کہ پاپائے اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد پوپ فرانسس ہر سال ایسٹر سے قبل ہولی تھرسڈے کے موقع پر جیلوں میں قیدیوں کے پاؤں دھو کر چومتے ہیں، جن میں مسلمان قیدی بھی شامل ہوتے ہیں۔
پوپ فرانسس کا یہ عمل براہ راست انجیل مقدس کی اُن آیات سے جڑا ہے، جن میں یسوع نے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھوئے۔ یہ عاجزی، خدمت اور رہنمائی کا عملی اظہار ہے
بائبل میں یوں مرقوم ہے :”پھر وہ شاگردوں کے پاؤں دھونے لگا پھر اُس نے اُن سے کہا، کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہارے ساتھ کیا کیا ہے؟ تم مجھے استاد اور خداوند کہتے ہو، اور تم ٹھیک کہتے ہو، کیونکہ میں وہی ہوں۔ پس اگر میں، جو خداوند اور استاد ہوں، تمہارے پاؤں دھوتا ہوں، تو تمہیں بھی ایک دوسرے کے پاؤں دھونا چاہیے۔”
(یوحنا 13:5، 12-14)
بیونس آئرس سے لے کر روم تک پوپ فرانسس نے ہر سال ہولی تھرسڈے کے موقع پر مختلف جیلوں کا دورہ کیا ہے۔ وہ ہمیشہ اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں جنہیں دنیا نے فراموش کر دیا ہے، مگر خدا نے انہیں یاد رکھا ہے۔
اس بار بھی، طبی مشکلات اور حالیہ اسپتال میں داخلے کے باوجود، انہوں نے ریجینا کوئلی جیل کا دورہ کیا تاکہ اس محبت بھری روایت کو برقرار رکھا جا سکے۔
جیل سے باہرصحافیوں سے مختصر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا:”جب بھی میں ایسے مقام پر آتا ہوں، اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں: وہ قید کیوں اور میں نہیں؟”اور جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اس سال ایسٹر کیسے گزاریں گے، تو مسکرا کر سادہ جواب دیا:”جیسا ممکن ہوا۔”