خودکش دھماکے میں شہید ہونیوالے مولانا حامد الحق حقانی کون تھے؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Who Was Maulana Hamid Ul Haq, Martyred in a Suicide Blast?

نوشہرہ کے معروف دینی مرکز دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں دہشت گردی کے افسوسناک واقعے میں مولانا حامد الحق حقانی شہید ہوگئے۔

اطلاعات کے مطابق یہ حملہ فتنہ خوارج کے سرغنہ نور ولی محسود کے خصوصی احکامات پر کیا گیا۔ مولانا حامد الحق حقانی نے ہمیشہ نام نہاد جہاد کے خلاف آواز بلند کی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دہشت گرد گروہوں کو خوارج قرار دیا تھا، جس کی پاداش میں انہیں نشانہ بنایا گیا۔

مولانا حامد الحق حقانی معروف عالمِ دین اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ تھے۔ وہ مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے تھے، جو دارالعلوم حقانیہ کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں اور اپنی علمی و دینی خدمات کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔

مولانا حامد الحق حقانی اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھا رہے تھے اور پاکستان میں دینی تعلیم کے فروغ، اسلامی تشخص کے تحفظ، اور امن و استحکام کے لیے کوشاں تھے۔

مولانا حامد الحق حقانی کا شمار ان علمائے کرام میں ہوتا تھا جو شدت پسندی کے خلاف کھل کر بولتے رہے۔ انہوں نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت کی اور غیر شرعی قتل و غارت کے خلاف فتویٰ بھی دیا۔ وہ پاکستان میں مذہبی و سیاسی ہم آہنگی کے حامی تھے اور تمام مسالک کے ساتھ مکالمے اور پرامن بقائے باہمی پر زور دیتے تھے۔

مولانا حامد الحق حقانی نے نہ صرف شدت پسندوں کے نظریات کو مسترد کیا بلکہ ان کے خلاف واضح فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ اسلام میں بے گناہ انسانوں کے قتل کی کوئی گنجائش نہیں اور جو گروہ جہاد کے نام پر مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں، وہ خوارج کے نظریات پر عمل پیرا ہیں۔ ان کے اس مؤقف کی وجہ سے انہیں طویل عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔

مولانا حامد الحق حقانی کو ہمیشہ پاکستان میں تحریکِ طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی مخالفت کا سامنا رہا۔ وہ پاکستان میں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو اسلام دشمن قرار دیتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ خوارج کے سرغنہ نور ولی محسود نے ان پر خودکش حملے کی سازش تیار کی۔ دہشت گرد انہیں راستے سے ہٹانا چاہتے تھے کیونکہ وہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے ایجنڈے میں بڑی رکاوٹ تھے۔

مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت پاکستان کے دینی و سیاسی حلقوں کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ انتہا پسند قوتیں اب بھی پاکستان کے امن اور مذہبی رہنماؤں کو نشانہ بنانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس بزدلانہ حملے کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچائے اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے مزید مؤثر اقدامات کرے۔

مولانا حامد الحق کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گرد عناصر ان تمام آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں جو اسلام کی اصل تعلیمات یعنی امن، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیتی ہیں۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور ان کا مشن جاری رکھنے کے لیے تمام امن پسند طبقات کو متحد ہونا ہوگا۔

Related Posts