غزہ کو ترکیہ کے ساتھ ملانے کا مطالبہ سامنے آگیا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو عالمی میڈیا

غزہ کی پٹی کے بارے میں پے در پے بیانات سامنے آ رہے ہیں، اسی اثناء میں ترکیہ میں حزب اختلاف کی “فیوچر پارٹی” کے سربراہ سابق ترک وزیر اعظم اور وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو نے ایک متنازعہ بیان دے کر سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی۔

نیو پاتھ پارٹی کے پارلیمانی بلاک کے اجلاس سے خطاب میں داؤد اوگلو نے غزہ کی پٹی کو ایک خودمختار علاقے کے طور پر جمہوریہ ترکیہ سے دوبارہ جوڑنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جرات مندانہ بیان دیا۔

ترک میڈیا کی رپورٹ کے مطابق داؤد اوگلو نے اس بات پر زور دیا کہ ترک جمہوریہ سلطنت عثمانیہ کے آئینی توسیع کی نمائندگی کرتی ہے۔ غزہ کے لوگ “کامریڈ اور فطری شہری” ہیں جن کی ترکیہ کے ساتھ مشترکہ تاریخ ہے۔

حزب اختلاف کی فیوچر پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ غزہ کے عوام کو ایک خودمختار علاقے کے طور پر ترک جمہوریہ سے منسلک ہونے کے لیے ایک عام ریفرنڈم کرانا چاہیے، جب تک کہ فلسطین کی ریاست قائم نہیں ہو جاتی انہیں فیصلے کا اختیار دینا چاہیے۔

داؤد اوگلو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کو خریدنے یا اس کی ملکیت کے بارے میں بیانات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ 309 مربع کلومیٹر کے کل رقبے کے ساتھ یہ پٹی نہیں چاہتے بلکہ قبرص اور مصر کے درمیان “سمندر کے نظارے” والے علاقے کے حصول میں دلچسپی رکھتےہیں، کیونکہ یہاں قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں۔

داؤد اوگلو نے عثمانی میراث پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سلطنت عثمانیہ برطانوی مینڈیٹ سے پہلے غزہ پر حکمرانی کرنے والی آخری آئینی ریاست تھی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اب بھی اپنے ضمیر اور تاریخ میں عثمانی شناخت کو برقرار رکھتے ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ترکیہ سلطنت عثمانیہ کے جائز وارث کے طور پر فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی خودمختاری کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔

Related Posts