20 لاکھ کی کمپنی 50 ارب کا لین دین؟ سولر پینلز کی آڑ میں 117 ارب روپے کی منی لانڈرنگ

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Eidul Fitr: Bank holidays announced
FILE PHOTO

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حکام نے سینیٹ کی قائمہ ذیلی کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو آگاہ کیا کہ کمرشل بینکوں نے 117 ارب روپے کی جعلی انوائسنگ کے ذریعے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ کی سہولت فراہم کی۔ یہ فراڈ سولر پینلز کی درآمد کے نام پر کیا گیا۔

ریونیو ڈویژن کی تحقیقات کے مطابق 2017 سے 2022 کے درمیان 69.5 ارب روپے کی اوور انوائسنگ کی نشاندہی کی گئی جس کے ذریعے قانونی تجارت کے بجائے سرمایہ ملک سے باہر منتقل کر دیا گیا۔

ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 63 درآمد کنندہ کمپنیوں کو اس فراڈ میں ملوث پایا گیا۔ کمیٹی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ کم از کم سرمایہ رکھنے والی کمپنیاں اربوں روپے کے کاروبار میں کیسے ملوث ہوئیں؟

ایک کمپنی جس کا سرمایہ صرف 20 لاکھ روپے تھا اس نے 50 ارب روپے کے لین دین کیے۔دوسری کمپنی جس کے پاس 1 کروڑ روپے کا سرمایہ تھا، اس نے 40 ارب روپے کی تجارت کی۔

تحقیقات میں کمرشل بینکوں کے کردار کو بھی جانچا گیا، جنہوں نے ان مشکوک ٹرانزیکشنز کو سہولت فراہم کی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے ملوث بینکوں پر 20 کروڑ روپے سے زائد کے جرمانے عائد کیے لیکن کمیٹی نے معمولی سزاؤں پر سوال اٹھایا اور اسٹیٹ بینک سے وضاحت طلب کی۔

تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے سرمایہ متعدد ممالک کو منتقل کیا گیا، جن میں متحدہ عرب امارات ،سنگاپور، سوئٹزرلینڈ، امریکا، آسٹریلیا، جرمنی، کینیڈا، جنوبی کوریا، سری لنکا، برطانیہ شامل ہیں۔

اتنے میں تو بینک ٹھیکے پر مل جائے اور، نیشنل بینک کے صدر کی تنخواہ اور مراعات جانتے ہیں؟

فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے 2019 میں ہی ان مشکوک ٹرانزیکشنز کی نشاندہی کر دی تھی، لیکن اس کے باوجود صرف 28 مشکوک لین دین کی رپورٹس ایف بی آر کو بھیجی گئیں۔ کمیٹی نے تاخیری ردعمل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک، ایف ایم یو اور ایف بی آر سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔

بینک حکام نے انکشاف کیا کہ نجی کمپنیاں اس فراڈ میں براہ راست ملوث تھیں:برائٹ اسٹار نامی کمپنی نے 4 ٹرانزیکشنز میں 185 ملین ڈالر کی منتقلی کی۔ مون لائٹ نامی کمپنی نے 2 ٹرانزیکشنز کے ذریعے 49 ملین ڈالر بیرون ملک بھیجے۔مجموعی طور پر 427 ملین ڈالر (تقریباً 117 ارب روپے) کی اوور انوائسنگ اور منی لانڈرنگ رپورٹ کی گئی۔

سینیٹ کمیٹی نے وعدہ کیا کہ اس اسکینڈل کی مکمل چھان بین کی جائے گی اور تمام ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے متعلقہ اداروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ مزید تفصیلات فراہم کریں تاکہ اس مالیاتی اسکینڈل میں شامل عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

Related Posts