ترک میڈیا نے شام کے نئے صدر احمد الشرع کو قتل کرنے کی مبینہ سازش کا انکشاف کیا ہے۔
ترک اخبار “Türkiye Gazetesi” نے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ عراقی صوبے نجف میں ایک خفیہ اجلاس میں ایران کی جانب سے شامی صدر احمد الشرع کو قتل کرنے کا پلان تشکیل دیا گیا ہے۔
اخبار نے بتایا کہ نجف میں ہونے والے خفیہ اجلاس میں ایران کے پاسداران انقلاب کے اعلیٰ جرنیل اور سابق شامی حکومت کے افسران نے شرکت کی اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف تنظیموں جیسے کہ پی کے کے، داعش، الحشد الشعبی اور حزب اللہ کی حمایت کے انتظامات پر بھی بات کی گئی۔
ترک اخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ اجلاس ایک تاجر کے ولا میں گزشتہ ہفتے ہوا، جس میں پاسداران انقلاب کے سابق کمانڈر اور دمشق میں ایران کے سابق سفیر جنرل حسین اکبر، پاسداران انقلاب کے فضائیہ کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ اور ایرانی انٹیلی جنس کے خصوصی آپریشنز کے افسر نے شرکت کی۔
رپورٹ کے مطابق اجلاس میں سابق شامی حکومت کے افسران بھی شریک تھے، جن میں جنرل اسعد العلی، جنرل محمد خلوف، کرنل عادل سرحان، کرنل عبد اللہ مناف الحسن اور کرنل محمد سرمینی شامل تھے۔
اخبار کے مطابق اجلاس میں شامی صدر احمد الشرع کو قتل کرنے کے منصوبے پر بات چیت کی گئی تاکہ ایران شام میں اپنے اثر و رسوخ کو دوبارہ بحال کر سکے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک فوجی بغاوت کا پلان بھی تیار کیا گیا۔
اخبار کا کہنا ہے کہ اجلاس میں جس منصوبے پر بات چیت کی گئی، اس میں شام کے کئی علاقوں جیسے السویداء، اللاذقیہ، طرطوس، حمص، الرقہ، الحسکہ اور دیر الزور میں نسلی اور فرقہ وارانہ کشیدگیاں پیدا کرنے کے اقدامات شامل تھے۔
منصوبے کے مطابق دیر الزور، البوکمال، الحسکہ، القائم، ربیعہ اور المالکیہ سمیت مختلف سرحدی راستوں کے ذریعے لاجسٹک سپورٹ اور اسلحے کی فراہمی پر اتفاق کیا گیا اور طرطوس اور اللاذقیہ سے سمندر کے ذریعے امداد کی فراہمی کو بھی یقینی بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔
اجلاس میں شریک افراد نے اتفاق کیا کہ کرد دہشت گرد تنظیم پی کے کے کے ساتھ اس منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے مکمل ہم آہنگی موجود ہے۔
اخبار کے مطابق ایرانی جرنیلوں نے یہ بات بھی کی کہ “دروز” (شام کا ایک اقلیتی فرقہ) سے مسلسل رابطے کیے جا رہے ہیں تاکہ انہیں اپنے علاقوں میں بغاوت پر اُکسایا جا سکے، جبکہ سابق شامی افسران نے بتایا کہ پی کے کے کے ساتھ تعاون آپریشنل سطح پر ہر پہلو میں جاری ہے۔
اخبار نے مزید بتایا کہ اجلاس میں حزب اللہ لبنانی اور الحشد الشعبی عراقی کے کردار پر روشنی ڈالی گئی، جنہیں اس منصوبے کی تکمیل میں شامل کرنے کی بات کی گئی، بشمول علوی اکثریتی علاقوں میں خفیہ سیلز بنانے، اسلحہ و گولہ بارود کی تقسیم اور آپریشنز کی کامیابی کے لیے ایک مضبوط مواصلاتی نیٹ ورک قائم کرنے کی کوششیں۔
واضح رہے کہ ترک اخبار کی اس رپورٹ کی آزاد ذرائع سے کوئی تصدیق سامنے آئی ہے اور نہ ہی اس مبینہ منصوبے میں شامل قوتوں کی جانب سے کوئی تردید جاری ہوئی ہے۔