نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے کلکتہ ریپ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کیس گزشتہ 30سال میں نہیں دیکھا۔
تفصیلات کے مطابق جرائم، حادثات اور جنسی زیادتی جیسے سنگین مسائل سے بھرپور ملک کی سپریم کورٹ نے کلکتہ ریپ کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ پولیس ڈائری اور پوسٹ مارٹم کے وقت میں فرق ہے۔ ملزم کے طبی معائنے پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ بھارتی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ جرم کی جی ڈی انٹری 10 بج کر 10 منٹ پر صبح کے وقت ہوئی تھی۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ متاثرہ خاتون کی لاش دیکھنے کے بعد بورڈ نے ابتدائی رائے دی کہ گلا گھونٹنے کے باعث موت ہوئی ہوگی جبکہ جنسی زیادتی خارج از امکان قرار نہیں دی گئی۔ اس کے باوجود پوسٹ مارٹم شام کو 6سے 7بجے کے مابین ہوا۔ 3 رکنی بینچ کے جج جسٹس پارڈی والا نے ریمارکس دئیے کہ اے ایس پی کا طرزِ عمل انتہائی مشکوک ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل 9 اگست کو بھارت کے شہر کلکتہ سے جونیئر ڈاکٹر کی تشدد زدہ لاش ملی جس سے مبینہ طور پر 10 افراد نے اجتماعی زیادتی کی اور بہیمانہ جنسی تشدد کے بعد قتل کردیا، جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہوگئے۔ بھارتی ڈاکٹرز نے ساتھی خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے خلاف ملک گیر مظاہروں کے اعلان کے دوران اسے وحشیانہ قتل قرار دیا تھا۔
بھارتی شہر کلکتہ سے برآمد ہونے والی جونیئر ڈاکٹر کی خون میں لت پت لاش نے ملک بھر میں خوف و ہراس پھیلا دیا تھا۔ ملک گیر مظاہروں کے دوران شہریوں نے مودی حکومت سے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔ ڈاکٹر رہنما سوورنکمار کا 6روز قبل کہنا تھا کہ ہم اپنی ساتھی ڈاکٹر کیلئے انصاف کے مطالبے کی منظوری تک مظاہروں میں شدت لا رہے ہیں۔