بنگلادیش میں تختہ انقلاب نے پوری دنیا کو تا حال اپنے سحر میں باندھ رکھا ہے۔ گو یہ انقلاب کئی مہینوں کی جدوجہد کا حاصل ہے، تاہم آخری دن بیگم شیخ حسینہ واجد کے خلاف مظاہرین کا غم و غصہ بہت ہی شدت سے سامنے آیا۔
آخری دن یعنی پیر کے دن حکومتی فورسز اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی بڑی شدت کی ہوئیں، جس کے نتیجے میں اشتعال میں کئی گنا اضافہ ہوا اور اس کا عملی مظاہرہ جس خطرناک شکل میں سامنے آیا، اس کی کچھ جھلکیاں ہم برطانوی نشریاتی ادارے کے شکریے کے ساتھ اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ ڈھاکہ میں سوموار کے دن کے چند مناظر ہیں جب شیخ حسینہ کے فرار کے بعد حکومت مخالف طلبہ تنظیم سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں نوجوان وزیر اعظم ہاؤس کی عمارت پر ٹوٹ پڑے۔
Getty Images تصویر
ایسے میں کئی دلچسپ مناظر بھی دیکھنے میں آئے جن میں کسی نے وزیر اعظم کے بیڈ روم میں بستر پر لیٹ کر تصویر بنوائی تو کسی نے سرکاری کھانے پر ہاتھ صاف کیا۔ اس نوجوان کو ساڑھی ملی، تو اس نے اس کا فوری استعمال اس شکل میں کرنا مناسب سمجھا۔
Getty Images تصویر
وزیر اعظم ہاؤس کے لان میں مظاہرین کا ہجوم۔ ان میں بہت سے وہ ہیں جنہیں دن بھر جھڑپوں کے دوران تھکنے کے بعد وزیر اعظم ہاؤس کے لان میں سستانے کا موقع ملا۔
Getty Images فوٹو
وزیر اعظم ہاؤس کے لان میں دو نوجوان ایک ٹوٹے ہوئے صوفے پر سستا رہے ہیں۔ یہ صوفہ انہیں شاید کسی کمرے سے ہاتھ آیا ہوگا۔
فوٹو Getty Images
یہ تین مظاہرین شاید ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک بڑا فریج جو ان کے ہاتھ لگا ہے، بڑی حفاظت سے اس کا جلوس نکال کر گھر لوٹ رہے ہیں۔
فوٹوGetty Images
ان نوجوانوں کو یہ گدا ہاتھ آیا ہے۔ موبائل پر اب خدا جانے وہ ویڈیو کال پر اپنا یہ کارنامہ کسی سے شیئر کر رہے ہیں یا کچھ اور۔
فوٹو گیٹی امیجز
فریم، ایل سی ڈی جس کے ہاتھ جو آیا، مال غنیمت اٹھا کر چلتا بنا۔
،فوٹوGetty Images
ایک نوجوان اپنا مال غنیمت فخر سے دکھاتے ہوئے۔ ایسا لگتا ہے ہر کسی نے وزیر اعظم ہاؤس فتح کرنے میں اپنے کردار کے ثبوت کے طور پر سامان پر ہاتھ صاف کیا ہے۔
،فوٹوGetty Images
اس انقلابی نوجوان کو شاید اور کچھ نہیں ملا تھا، سوچا وزیر اعظم ہاؤس کا فانوس ہی سہی۔۔۔۔۔
فوٹو گیٹی امیجز
اس تصویر میں بنگلا دیش کے بابائے قوم شیخ مجیب الرحمن کا گھر جلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اسے شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے قومی عجائب گھر کا درجہ دے رکھا تھا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں سے شیخ مجیب الرحمان کو سنہ 1971 میں گرفتار کیا گیا تھا اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد فوجی بغاوت میں اسی جگہ ان کو پورے خاندان سمیت قتل کر دیا گیا تھا۔