31 جولائی کو تہران میں پیش آنے والے فلسطینی تحریک مزاحمت کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے عظیم سانحے کی گونج اب تک پورے عالم اسلام کی فضاؤں میں موجود ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل تا حال زخمی اور چھلنی ہیں۔
عالم اسلام کے اس عظیم سانحے کے بعد جہاں ایران بدلہ لینے کی بات کر رہا ہے وہاں دنیا بھر کے مسلمان بھی سانسیں روکے بڑی شدت سے منتظر ہیں کہ ایران اسرائیل سے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ کیسے لیتا ہے؟
فلسطین سے باہر دنیا بھر میں اسرائیلی دسیسہ کاریوں کے نتیجے میں فلسطینی مزاحمتی رہنماؤں کی شہادت کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ اسرائیلی کمانڈوز ماضی میں تیونس سے لیکر دبئی تک دنیا بھر میں فلسطینی تحریک مزاحمت کے کئی رہنماؤں کو تعاقب کرکے شہید کر چکے ہیں۔
اسماعیل ہنیہ کے بعد حماس کی سیاسی لیڈرشپ میں ایک بڑا نام خالد مشعل کا ہے۔ خالد مشعل اسماعیل ہنیہ سے پہلے اسی عہدے پر رہ چکے ہیں، جس عہدے پر اسماعیل ہنیہ شہید رہے تھے۔ اسرائیلی کمانڈوز نے ماضی میں انہی خالد مشعل کو اردن میں نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی، جس کا بدلہ اردن نے بڑے زبردست طریقے سے لیا اور فوری ردعمل دے کر خالد مشعل کی جان بھی بچائی اور اسرائیل سے اس حرکت کا ٹھیک ٹھاک بدلہ بھی لیا۔
خالد مشعل پر عَمان میں حملے کا منصوبہ
فیس بک پر عرب افیئرز کے ممتاز تجزیہ کار علی ہلال نے ہنیہ کی شہادت کے بعد ایران سے بدلہ لینے کی توقعات کے پس منظر میں خالد مشعل پر حملے کیخلاف اردن کی جانب سے اسرائیل سے فوری بدلہ لینے کے تاریخی واقعے پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ بدلہ تو ایسے لیا جاتا ہے۔
علی ہلال لکھتے ہیں کہ 25 ستمبر 1997ء کا دن تھا۔ اس وقت بھی اسرائیل کے وزیراعظم یہی موجودہ بن یامین نیتن یاہو تھے۔ جبکہ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ افراییم دانی یاتون تھے۔
موساد نے اردنی دارالحکومت عمان میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے اس وقت کے سربراہ خالد مشعل کے قتل کا منصوبہ بنایا اور اس کیلئے موساد کی ٹیم عمان روانہ کردی گئی۔
منصوبہ اور کارروائی
دارالحکومت عمان کے ایک ہوٹل میں مقیم اسرائیلی جاسوسوں نے کارروائی سے قبل کئی روز تک ان کی ریکی کی۔ اس کے بعد انتہائی خطرناک زہر کے ذریعے ان پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کرلی گئی۔
علی ہلال کے بقول منصوبے کے مطابق جیسے ہی خالد مشعل اپنی گاڑی سے اتر کر اپنے دفتر کی جانب بڑھنے لگیں، قاتلوں نے ان کے قریب جا کر جوس کا مخصوص ڈبا کھول دینا تھا، مگر یہ کام اس انداز میں انجام دینا تھا کہ ایسا ظاہر ہو جیسے وہ عام راہگیر ہیں اور یہ حرکت انجانے میں ہوگئی ہے۔
ڈبے سے جوس چھلکنے کے ساتھ ہی دوسرے بندے نے اس دوران فوری طور پر ہاتھ میں لئے زہریلے انجکشن کو خالد مشعل کے کان پر خالی کرنا تھا۔
اس دوران ایک تیسرے بندے کو تریاق دے کر ہوٹل میں بٹھادیا گیا تھا تاکہ کسی غلطی کی صورت میں بروقت تریاق پہنچا کر غلطی سے نشانہ بننے والے شخص کی جان بچائی جاسکے۔
25 اکتوبر کو خالد مشعل عمان میں اپنے دفتر کے آگے جیسے ہی اترے۔ ان کے ساتھ ان کے گھر والے بھی تھے۔ عقب سے دو بندے ان کے قریب آگئے۔ اور ان پر منصوبہ کے مطابق حملہ کیا۔ تاہم خوش قسمتی یہ ہوئی کہ جوس کا ڈبا پھٹ نہیں سکا اور سرنج والے نے زہر ویسے ہی پھینک دیا۔ جس سے سمجھدار خالد مشعل کو معاملہ سمجھنے میں دشواری نہ ہوئی۔ تاہم زہر خالد مشعل کے کان کے پیچھے کے حصے پر لگ گیا اور اس کے اثرات بھی شروع ہوگئے۔
یہ زہریلا مادہ اس قدر خطرناک تھا کہ مشعل کو شدید کرنٹ محسوس ہوگیا جس پر وہ سمجھ گئے کہ ان پر قاتلانہ حملہ ہوگیا ہے۔ بیہوشی سے قبل ہی مشعل نے خود کو واپس اپنی گاڑی میں ڈال دیا اور بیہوش ہوگئے۔
اس دوران گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہونے کی کوشش کرنے والے موساد ایجنٹوں کو دیکھ کر موقع پر موجود ایک فلسطینی نے ان کا پیچھا کیا اور انہیں گاڑی سے اترنے پر مجبور کیا۔ گاڑی سے اتر کر اس سخت جان فلسطینی نے موساد ایجنٹوں کے ساتھ دوبدو لڑائی شروع کی جس پر راہگیر جمع ہوگئے اور یوں بندے بہت جلد پہچان لئے گئے۔
اردن کی کارروائی
موقع پر پکڑے جانے پر ان دو ایجنٹوں نے بتایا کہ وہ کینیڈین شہری ہیں۔ اس دوران پولیس بھی پہنچ گئی۔ بندوں کو گرفتار کرکے لے گئی اور فوری طور پر کینیڈین قونصل جنرل کو بلایا گیا۔ مختصر بات چیت پر کینیڈین قونصل جنرل نے ان کے کینیڈین ہونے کی تردید کردی۔ اس دوران مشعل پر حملے اور ان افراد کے ملوث ہونے کی کہانی کھل گئی۔ اردنی عوام جمع ہونے لگے اور معاملہ اردنی فرمانروا حسین تک پہنچا دیا گیا۔
اردنی فرمانروا کے ساتھ اس دوران اسرائیلی موساد کے سربراہ نے رابطہ کیا جس پر بادشاہ نے بتایا کہ دونوں قاتل گرفتار ہیں اور اگر انہیں فوری طور پر تریاق نہیں دیا گیا اور اسرائیلی جیل میں قید حماس راہنما احمد یاسین کو رہائی نہ ملی اور خالد کی جان نہیں بچی تو اسرائیلی سفارت خانہ محصور ہے۔ حملہ آوروں سمیت سب کی لاشیں جائیں گی اور اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ بھی ختم ہوگا۔
اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن معاملہ کی باریکی سمجھ گئے۔ اسرائیل سے فوری بات چیت کی گئی۔ اور یوں موساد سربراہ نے فوری طور پر اردن کے ہوٹل میں بیٹھے ہوئے ایجنٹ کو اردنی افسران تک تریاق پہنچا نے کی ہدایت کردی۔ جسے موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا خالد کو دے دیا گیا اور یوں ان کی جان بچ گئی۔
اردن میں پیش آنے والے اس واقعہ میں اردن نے وہ کردار ادا کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔
علی ہلال لکھتے ہیں کہ تہران میں پیش آنے والے واقعہ پر ایرانی ردعمل بہت ہی کمزور ہے۔ ایران اور اس کے حامی ہر معاملے میں عرب ممالک کو مورد الزام ٹہرانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ایسے عناصر کے پروپیگنڈے سے متاثر افراد کو درست معلومات سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔