مودی سرکار نے اسلام مخالف سول کوڈ ٓنافذ کردیا

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں ایک یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) منظور کیا گیا ہے، جس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے، تاہم ناقدین کو خدشہ ہے کہ اسے مودی سرکار ملک بھر میں نافذ کر سکتی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ”اے ایف پی“ کے مطابق اتراکھنڈ میں منظور کردہ یونیفارم سول کوڈ نے متوقع قومی انتخابات سے چند ہفتے قبل منقسم بحث کو جنم دیا ہے۔

اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلم خواتین کو ایسے حقوق دیتا ہے جس کے تحت شوہر کی ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی، بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے مساوی وراثتی حقوق اور طلاق کا سول کورٹ کے سامنے ضروری ہونا شامل ہے۔

اس قانون کے تحت خواتین کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال اور مردوں کے لیے 21 سال مقرر کی گئی ہے، جبکہ ہم جنس پرست تعلقات کا اندراج کروانا لازمی قرار دیا گیا ہے، بصورت دیگر تین ماہ جیل یا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی طویل عرصے سے سب کے لیے یکساں شہری قوانین کے لیے مہم چلا رہی ہے، لیکن اس سے خاص طور پر اقلیتی مسلمانوں کے درمیان پریشانی بڑھ گئی ہے۔

ناقدین اسے حکمراں بی جے پی کی جانب سے قومی سطح پر یو سی سی نافذ کرنے کے وعدے کو پورا کرنے کی بنیاد طور پر دیکھتے ہیں۔

ریاست اتراکھنڈ میں ایک کروڑ 20 لاکھ آبادی میں سے تقریباً 80 فیصد ہندو ہیں، یہاں کے مقامی رہنما دھامی کا کہنا تھا کہ ’تاریخ بنائی جا رہی ہے، یہ دیگر ریاستوں کے لیے ایک مثال ہوگی۔‘

خیال رہے کہ بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ آبادی ایک مشترکہ فوجداری قانون کے تابع ہے، جو برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی میں متعارف کرایا گیا تھا۔

لیکن یہاں شادی، طلاق، گود لینے اور وراثت جیسے ذاتی معاملات کے لیے ایک جیسے قوانین کی بجائے مختلف قوانین پر عمل کیا جاتا ہے۔

مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یو سی سی طلاق، شادی اور وراثت سے متعلق اسلامی قوانین کے خلاف ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے سول کوڈ بل کو ہندوستانی آئین میں درج بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ضابطہ مسلمانوں کو مختلف مذہب اور ثقافت کی پیروی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ نے کہا کہ وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی کی طرف سے پیش کردہ مجوزہ بل تمام برادریوں پر لاگو ایک ”ہندو کوڈ“ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

بل کی یکسانیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اویسی نے کہا کہ اگر کسی قانون کا اطلاق ریاست کی اکثریت پر نہیں ہوتا تو اسے یکساں کیسے کہا جا سکتا ہے؟

مسلم تنظیم جمیعت علمائے ہند کے رہنما ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ ’ہم ایسے کسی بھی قانون کو قبول نہیں کر سکتے جو شریعت اسلامی کے قانون کے خلاف ہو۔‘

آل انڈیا مسلم ویمن ایسوسی ایشن کی سربراہ عاصمہ زہرہ کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں ہمارے شادی کے نظام کو قرآن پاک کے مطابق چلایا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کم عمری کی شادی کے مسئلے کو سماجی اصلاحات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، نہ کہ ہم سے مشورہ کیے بغیر قانون نافذ کرکے۔‘

 

Related Posts