کیا ’300 یونٹ فری بجلی‘ دینے کے دعوؤں پر عمل درآمد ممکن ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اس بار انتخابی مہم کے دوران گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں نسبتاً کم گہماگہمی ہے، تاہم جیسے جیسے مہم آگے بڑھ رہی ہے، مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ووٹرز کا دل لبھانے کیلئے بڑے بڑے دعوے سامنے آ رہے ہیں۔

گزشتہ دو سالوں کے دوران اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کی بڑی وجہ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور تیزی سے گرتی ہوئی شرح مبادلہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی بجلی کی قیمت میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، جس کی بنا پر گزشتہ سال ملک بھر میں بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔

بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی صورتحال اب بھی برقرار ہے، چنانچہ بجلی کی مہنگائی کے تئیں عوامی جذبات کے دیکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز دونوں نے غریب اور متوسط طبقے کو مفت بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بلاول نے اس سلسلے میں جب 300 یونٹس تک مفت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تو مریم نواز نے ان کے مقابلے میں ابتدائی طور پر 200 یونٹ مفت فراہم کرنے کی بات کی، تاہم بعد میں ان کے کزن حمزہ شہباز نے بھی بلاول کی پیروی کرتے ہوئے 300 یونٹ بجلی فری دینے کا اعلان کر دیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دعوے، وعدے اور اعلانات معروضی طور پر درست ہیں؟ اس حوالے سے ماہر معیشت راؤ عامر کا کہنا ہے کہ اس کیلئے بڑے پیمانے پر سبسڈی دینا پڑے گی اور ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اس کی متحمل نہیں ہے۔

اس وقت بجلی صارفین کی ٹیرف کے حوالے سے مختلف کیٹگریز میں درجہ بندی کی گئی ہے، جس میں مختلف سلیب کے صارفین کیلئے بجلی یونٹس کی مختلف قیمت مقرر ہے۔

بی بی سی اردو کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 300 مفت یونٹس کے نعرے زمینی حقائق کے منافی ہیں۔ رپورٹ میں مختلف ماہرین کے حوالے سے وضاحت کی گئی ہے کہ گردشی قرضے جیسے مسائل کی وجہ سے اس تجویز پر عمل درآمد کا امکان نہیں ہے۔ مفت یونٹس فراہم کرنے کے لیے حکومت کو یا تو کمپنیوں کو بجلی پیدا کرنے کے لیے ادائیگی کرنے یا کراس سبسڈی دینے کی ضرورت ہوگی، لیکن بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کی موجودگی میں ایسا کرنا قطعا آسان نہیں ہوگا۔

ایک رپورٹ کے مطابق دو تہائی صارفین 300 سے کم یونٹ استعمال کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مفت یونٹ اسکیم پر عمل درآمد سے حکومت کو 2000 ارب روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔ جسے آئی ایم ایف کسی صورت منظور نہیں ہونے دے گا۔

Related Posts