انسانوں کو کوئی حادثہ پیش آئے تو ایمبولینس آجاتی ہے، مگر ہمارے ملک میں بے زبان جانوروں کے ساتھ کوئی بھی پریشان کن صورتحال پیش آجائے تو ان کیلئے کہیں سے کوئی ایمبولینس آتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ادارہ ہے جو ان کو ریسکیو کیلئے پہنچے۔
یہ کہنا ہے لاہور کی ایک باہمت اور انتہائی رحمدل لڑکی عائشہ کا جو لاہور شہر میں بے زبان جانوروں کی محافظ بن کر سامنے آئی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر بھوک، حادثات اور بیماریوں سے دوچار بے زبان جانوروں کو ان کی ضرورت کے مطابق مدد فراہم کرتی ہیں۔
عائشہ نے تن تنہا بے زبانوں کی حفاظت اور ضرورت کے وقت ان کی مدد کی سوچ اپنا کر ملک کے نوجوانوں کیلئے انسانیت کی قابل فخر مثال قائم کردی ہے۔ جانوروں سے ان کی بے لوث ہمدردی اس قدر ہے کہ وہ نہ صرف ان کیلئے اپنے قیمتی اور مصروف وقت میں سے ٹائم نکالتی ہیں بلکہ اپنی آمدن کا ایک حصہ بھی بصد شوق ان پر لگاتی ہیں۔
گزشتہ چھ ماہ سے عائشہ کی زندگی کا یہ روزانہ کا معمول ہے کہ وہ اپنی جاب سے چھٹی کے بعد شام کے اوقات میں اپنی بائیک لیکر شہر کے مختلف حصوں کا وزٹ کرتی ہیں، جہاں فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر کتوں اور بلیوں کے لاوارث بچے مشکل حالات سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔
عائشہ ایک ایک کرکے ان علاقوں میں پہنچتی ہیں اور ننھے منے بے زبان جانوروں کو فیڈ دیتی ہیں، ان کی جسمانی صورتحال کا جائزہ لیتی ہیں، انہیں کوئی بیماری لاحق ہو یا کسی حادثے کی وجہ سے انہیں کوئی چوٹ وغیرہ آئی ہو تو ایسے جانوروں کو وہ اپنی بائیک پر بٹھا کر انیمل سینٹر پہنچ جاتی ہیں، جہاں ان کو ضروری دوا وغیرہ دینے کے بعد یا تو اپنے ساتھ گھر لے جاتی ہیں یا کسی دوسرے خیال رکھنے والے کے حوالے کردیتی ہیں۔
عائشہ یہ ساری خدمت نہایت جانفشانی سے اپنا فرض اور ذمے داری کے طور پر انجام دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسا کیوں نہ ہو کہ میں اس مذہب کی پیروکار ہوں جس میں ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی عورت کو اپنی رحمت کا مستحق بنایا اور اس کے سارے گناہ معاف کردیے جس نے ایک پیاسی کتے کو پانی پلایا تھا۔
عائشہ بتاتی ہیں کہ وہ بغیر کسی دکھاوے اور کسی لالچ کے بے زبان جانوروں کی خدمت اپنا انسانی فرض سمجھ کر بجالاتی ہیں۔ ان کے مطابق وہ روزانہ بیس سے پچیس جانوروں کو فیڈ کراتی ہیں، جن کے اخراجات کا ایک حصہ وہ اپنی سیلری سے ہولڈ کرتی ہیں۔
اس کام میں انہیں اپنی ماں کی سپورٹ حاصل ہے، جو جانوروں کیلئے فیڈ تیار کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں اور اس خدمت کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اخراجات کے متعلق سوال پر وہ کہتی ہیں کہ بسا اوقات تنگی بھی پیش آتی ہے مگر اللہ تعالیٰ ان بے زبان جانوروں کے نصیب کا انہیں دے ہی دیتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ مرنا تو سبھی کو ہے، مگر مر کر بھی صرف وہی لوگ زندہ رہنے کا اعزاز حاصل کرتے ہیں جو خیر بانٹتے ہیں اور اچھے کام کرکے لوگوں کے دلوں میں مقام بنالیتے ہیں۔ عائشہ کہتی ہیں ان کی خواہش ہے کہ وہ دنیا سے کچھ ایسا کرکے جائیں کہ مرنے کے بعد بھی انہیں اچھے نام سے یاد رکھا جائے۔