سویلین افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت کب سزا دی جا سکتی ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ نے نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں سزا دینے کیخلاف فیصلہ دیا اور بتایا کہ عام شہریوں کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا نہیں دی جاسکتی۔

عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کیخلاف وفاقی حکومت اپیل میں جانے کا عندیہ دے چکی ہے، تاہم عدالتی فیصلے کے باوجود اس حوالے سے قانونی ماہرین دوسری رائے کا بھی اظہار کر رہے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ 2015 میں پارلیمان کی طرف سے کی جانے والی ترمیم کے بعد آرمی ایکٹ کے تحت سویلین ملزمان کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔

فوجی ایکٹ میں کیا ہے؟

آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ جانیں گے کہ آرمی ایکٹ کیا ہے اور اس کا اطلاق کہاں ہوتا ہے اور اس قانون کا دائرہ کار کیا ہے۔

  ماہرین قانون کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ان جرائم کا حوالہ دیا گیا ہے جن کا ٹرائل اس ایکٹ کے تحت اس صورت میں ہوتا ہے جب ان جرائم کا ارتکاب فوجی اہلکار کریں، تاہم اسی ایکٹ کے اطلاق کے حوالے سے کچھ شقوں میں یہ قانون بعض صورتوں میں عام شہریوں پر بھی نافذ ہوتا ہے۔

آئینی ترمیم
سنہ 2015 میں قومی اسمبلی کے بعد پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کی متفقہ منظوری دی تھی۔ ان ترامیم کے تحت مندرجہ ذیل جرائم میں ملوث افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی جا سکے گی:

پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والے۔
فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے والے، اغوا برائے تاوان کے مجرم۔
غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو مالی معاونت فراہم کرنے والے۔
مذہب اور فرقے کے نام پر ہتھیار اٹھانے والے۔
کسی دہشت گرد تنظیم کے ارکان۔
سول اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے، دھماکا خیز مواد رکھنے یا کہیں لانے، لے جانے میں ملوث افراد۔
دہشت اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرنے والے۔
بیرونِ ملک سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے۔

عام شہریوں پر کب اطلاق ممکن ہے؟

آرمی ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی میں دو ایسی شقیں موجود ہیں جن کے تحت عام شہریوں پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے جن میں پہلی جاسوسی یا عسکری راز فراہم کرنا اور دوسری فوجیوں کو حکم نہ ماننے پر اکسانا یا پھر فوج کے ادارے کے خلاف اکسانا شامل ہے۔

اگر کوئی شہری دشمن کو کوئی راز فراہم کرتا ہے اور اس کے ثبوت موجود ہیں تو ایف آئی آر کے اندراج کے بعد اسے گرفتار اور فوج میں اس پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

دوسری شق کے مطابق اگر کوئی شخص کسی کو فوجی کمان کے خلاف بغاوت، فساد برپا کرنے کے لیے اشتعال دلانے، اُکسانے یا ترغیب یا تحریک دینے کا سبب بنے تو اس صورت میں بھی فوج اس کے خلاف آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کے تحت مقدمہ چلا سکتی ہے۔

چاہے ایسا کسی تقریر کے ذریعے ہی کیا گیا ہو، اگر اس سے فوج کے خلاف اکسانے کا تاثر بھی ملے تو اس صورت میں بھی اس شخص کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔

اگر کوئی شخص تقریر میں کہتا ہے کہ فوج یا اپنی کمان کا حکم نہ مانیں تو اس پر بھی یہ قانون لگے گا۔

کیا نو مئی واقعات کے ملزمان پر اطلاق ہوتا ہے؟

دیکھا جائے تو بد قسمتی سے 10 اپریل 2022 کو عدم اعتماد کے نتیجے میں پی ٹی آئی سربراہ  کی حکومت برطرف کی گئی، تو انہوں نےاپنی تقریروں میں مسلسل کارکنوں اور عوام میں فوج اور اداروں کیخلاف اشتعال پھیلایا، عوام اور کارکنان کو اکسایا، یہاں تک کہ فوجی افسران اور اہلکاروں کو بھی پی ٹی آئی کی قیادت اور پی ٹی آئی کے پروپیگنڈا سیلز نے عسکری قیادت کے خلاف ابھارنے کی کوشش کی۔

کون بھول سکتا ہے کہ موجودہ آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف اور متعدد دیگر افسران کے باقاعدہ نام لیکر ان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا گیا، فوجی افسران کو کمانڈ کی حکم عدولی پر اکسانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اس سب کا نتیجہ نو مئی کے تباہ کن حادثے کی صورت میں برآمد ہوا اور نو مئی 2023 کو مشتعل کارکنوں اور ان کے بہکاوے میں آئے عوام نے کورکمانڈر ہاوس لاہور، جی ایچ کیو، قلعہ بالاحصار سمیت ملک بھر میں آرمی تنصیبات اور فوجی مراکز پر دھاوا بول دیا اور ملک دشمن عناصر کی طرح اپنی فوج کے خلاف کھل کر عداوت کا مظاہرہ کیا۔

چنانچہ آرمی ایکٹ کے ایکٹ نو مئی کے واقعات کے پلانرز اور ذمے داروں کیخلاف کارروائی کو اصولی طور پر غیر قانونی نہیں کہا جاسکتا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ کارروائی اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ آئندہ ایسے سنگین واقعات سے بچا جاسکے۔

Related Posts