فلسطین کا اہم علاقہ غزہ گزشتہ تین ہفتوں سے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کی زد میں ہے، یہ مظلوم شہر گزشتہ پندرہ سال سے اسرائیل کا ظالمانہ محاصرہ جھیل رہا ہے، آئیے کرہ ارض پر مظلوم ترین انسانوں کے اس شہر کے متعلق کچھ خاص معلومات حاصل کرتے ہیں۔
غزہ کب آباد ہوا؟
العربیہ کے ایک فیچر کے مطابق غزہ کو کنعانیوں نے 3500 سال قبل تعمیر کیا تھا۔ اس وقت انہوں نے اسے ’’ھزاتی‘‘ کا نام دیا تھا۔ ’’مرکز قومی معلومات فلسطین‘‘ کی رپورٹ کے مطابق فرعونوں نے اس علاقے کا نام ’’غزاتو‘‘ رکھا۔ پھر آشوریوں اور یونانیوں کے دور میں اس کا نام ’’ازاتی‘‘ ہوگیا۔ اس کے بعد عبرانیوں نے اس شہر کو ’’فازا‘‘ کہنا شروع کردیا۔ عبرانیوں نے اسے بدل کر ’’عزہ‘‘ کردیا اور عربوں کا دور آیا تو اس کا نام ’’غزہ‘‘ ہوگیا۔
‘یہاں بچوں کے قاتلوں کیلئے کوئی جگہ نہیں’ داغستان میں اسرائیلی جہاز پر مظاہرین کا دھاوا
غزہ میں پیغمبر اسلام کے پر دادا کا مزار
غزہ کا معنی کیا ہے؟ اس حوالے سے جس معنی کو ترجیح دی گئی ہے وہ ’’ناقابل تسخیر‘‘ ہے۔ غزہ شہر اپنے نام میں ناقابل تسخیر کا معنی لیے ہوئے ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد گرامی سیدنا عبد اللہ بن عبد المطلب تشریف لائے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پردادا ہاشم بن عبد مناف کئی بار آئے ہیں، اس لیے اس شہر کو “غزۃ ھاشم” بھی کہا گیا ہے۔ غزہ میں آج بھی وہ مقام موجود ہے جہاں حضرت ہاشم بن عبد مناف کو سپرد خاک کیا گیا تھا، یہ قبر آج بھی مسجد سید ہاشم بن عبد مناف کے احاطے میں سلامت موجود ہے۔

امام شافعی کا مولد
جس سال 150 ھجری یا767 عیسوی میں امام ابو حنیفہ ؒ کی وفات ہوئی، اسی سال امام شافعی غزہ شہر میں پیدا ہوئے۔ امام شافعی نے غزہ سے 25 کلومیٹر دور عسقلان شہر میں بچپن کے ابتدائی دو سال گزارے۔ اس کے بعد والدہ کے ساتھ مکہ ہجرت کر گئے۔ امام شافعی سے منسوب ہے کہ انہوں نے غزہ کی محبت میں دو شعر بھی کہے تھے۔
وإني لمشتاق إلى أرض غـزة … وإن خانني بعد التـفـرّق كتماني
سقـى اللـه أرضاً لـو ظفرت بتربـهـا… كحلتُ به مـن شدة الشوق أجفانـي
مشہور سیاح ابن بطوطہ نے بھی 1355 میں شمالی مصر کے شہر صالحیہ سے نکلنے کے بعد غزہ کا رُخ کیا اور کئی دن غزہ میں قیام کیا تھا۔ ابن بطوطہ نے لکھا “ہم پیدل چلتے ہوئے غزہ شہر تک پہنچے جو مصر کے ساتھ لیونٹ میں پہلا مقام ہے۔ اس کا قطر چوڑا ہے۔ اس میں بہت سی خوبصورت عمارتیں، بازار اور مساجد ہیں۔ اس میں حسن مسجد ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جس میں اب نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے۔ اس مسجد کو امیر معظم جاولی نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ مسجد بڑی خوبصورتی سے بنائی گئی ہے۔ اس کا منبر سفید سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے۔”
ابن بطوطہ نے اپنی مشہور کتاب “تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار” میں اس سفر کی دیگر تفصیلات بھی بیان کی ہے۔
عربوں کا غزہ سے تعلق
وہ عرب جن سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت غزہ فتح کیا تھا، ان کا اس شہر سے اسلام سے پہلے اور بعد میں گہرا تعلق تھا۔ یہ عرب اپنی تجارت اور سفر کے دوران یہاں آتے تھے۔ غزہ تجارتی راستوں کا ایک گیٹ وے تھا۔ قرآن کریم کی سورت قریش میں مذکور دو مشہور سفروں میں سے ایک سفر کی منزل غزہ ہی تھا۔ قریش کے تاجر سردیوں میں یمن اور گرمیوں میں غزہ اور مضافات کا سفر کرتے تھے۔ قرآن کریم میں سورۃ قریش میں انہیں دو سفروں کا ذکر ہے۔
جب غزہ میں حضرت ہاشم بن عبد مناف کا انتقال ہوا
ہاشم بن عبد مناف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا ہیں اور جن سے خاندان بنو ہاشم کا آغاز ہوتا ہے کا انتقال غزہ کی جانب موسم گرما کے سفروں میں سے ایک کے دوران ہوگیا تھا۔ انہیں غزہ میں دفن کیا گیا اور ان کا مزار اب بھی “سید ہاشم مسجد” میں موجود ہے۔ اس مسجد کو مملوکوں نے شہر کے “الدرج” محلے میں تعمیر کیا تھا۔ 1850 میں عثمانی سلطان عبدالحمید نے اس کی تزئین و آرائش کی۔ اس لیے اس شہر کو کبھی کبھی “غزہ ہاشم” یعنی ’’ہاشم کا غزہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
غزہ کی قدیم تاریخ میں ہمیں ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب جب 25 سال کے تھے تو قریش کے ایک قافلے کے ساتھ غزہ گئے تھے۔ یہ قافلہ شام اور فلسطین گیا تھا۔ قافلہ واپسی پر یثرب شہر سے گزرا تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد بیمار ہوگئے۔ اس وقت عبداللہ بن عبد المطلب یثرب میں اپنے ماموؤں کے قبیلے بنو عدی بن النجار کے پاس رہنے پر مجبور ہوگئے۔ وہ بنو عدی کے ہاں ایک ماہ تک مقیم رہے۔ اس وقت ان کی اہلیہ آمنہ بنت وھب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ محترمہ) دوسرے ماہ کے حمل سے تھیں اور مکہ مکرمہ میں ان کی واپسی کا انتظار کر رہی تھیں۔
حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب کے ساتھیوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ جب وہ مکہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے ان سے اپنے بیٹے عبداللہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے بیماری کی وجہ سے انہیں ان کے ماموں کے پاس چھوڑ دیا ہے ۔ عبد المطلب نے اپنے سب سے بڑے بیٹے حارث کو یثرب (مدینہ منورہ) روانہ کیا۔ حارث مدینہ منورہ پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ عبد اللہ بن عبد المطلب کی وفات ہوگئی ہے اور ان کی تدفین بھی وہیں ہوگئی ہے۔ اس کے چند ماہ بعد حضرت آمنہ بنت وھب کے ہاں سید المرسلین، خاتم النبین اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہوئی۔ اللھم صل علی محمد و آلہ و صحبہ و بارک و سلم۔