گزشتہ دن فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے ترجمان نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے کا وقت گزر چکا ہے اور موجودہ جنگ ملی تاریخ کی فیصلہ کن جنگ ہو گی۔
القسام کے ترجمان ابو عبیدہ کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ دنیا کو طویل عرصے سے اسرائیلی فوج کے ناقابل تسخیرہونے، اس کے تباہ کن مرکاوا ٹینکوں اور اعلیٰ ترین انٹیلی جنس کے متعلق جو جھوٹ بیچا جا رہا ہے، اب اس کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔ ہم نے یہ جھوٹ اور اس سے پیدا ہونے والے خوف کا بت پاش پاش کر دیا ہے۔
ایک طرف فلسطین کے مجاہدین آزادی کے عزائم اور جرات و بہادری کا یہ عالم ہے کہ وہ اسرائیل کو شکست و ریخت سے دوچار کرنے کا بڑے وثوق سے اعلان کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف اسرائیلی حلقوں میں گردش کرنے والی ایک پیشین گوئی نے صہیونیوں کے اعصاب پر شدید خوف و دہشت اور بے یقینی کا بھوت سوار کر دیا ہے۔
صہیونی حلقوں میں بعض تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ پیش گوئی گردش کر رہی ہے کہ اسرائیل کے قیام کی آٹھویں دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی اس ناجائز ریاست کے خاتمے کا وقت شروع ہو چکا ہے، چنانچہ تورات اور تلمود (تورات کی تشریحی مذہبی کتاب) کے حوالے دے کر یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا ریاست اسرائیل “آٹھویں دہائی کی لعنت” سے خود کو محفوظ رکھ پائے گی یا نہیں؟ آئیے جانتے ہیں یہ “آٹھویں دہائی کی لعنت” کیا ہے، اس کا انجام کیا ہوگا اور یہ کس طرح اسرائیل کا تعاقب کر رہی ہے؟
آٹھویں دہائی کی لعنت
گزشتہ سال اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود باراک نے اسرائیل کے قیام کی 80 ویں سالگرہ سے قبل اسرائیل کے انہدام اور شکست و ریخت کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہودی تاریخ بتاتی ہے کہ دو غیر معمولی ادوار کے علاوہ یہودیوں کے پاس 80 سال سے زیادہ عرصے تک کوئی ریاست نہیں رہی ہے۔
اسرائیلی اخبار یدیعوت احرنوت میں اپنے ایک مضمون میں ایہود باراک کا کہنا تھا کہ یہودیوں کی پوری تاریخ میں ان کی کوئی ریاست 80 سال سے زیادہ نہیں رہی ہے، سوائے دو ادوار کے: اول کنگ ڈیوڈ (اللہ کے نبی سیدنا داؤد علیہ السلام جو بادشاہ بھی تھے) کا دور اور دوم ہسمونیہ کا دور۔ ان دو ادوار کے علاوہ یہودیوں کی کوئی ریاست اسی سال تک قائم نہیں رہ سکی ہے۔
ایہود باراک کا مزید کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کا موجودہ تجربہ (اسرائیل) یہودی تاریخ کا تیسرا تجربہ ہے، جو اپنے آٹھویں عشرے میں داخل ہوچکا ہے۔ ایہود باراک نے تاریخی تعامل کا حوالہ دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ آٹھویں دہائی کی لعنت اب اسرائیل پر بھی اسی طرح نازل ہوگی جس طرح تاریخ میں اس سے پہلے مختلف یہودی ریاستوں پر پڑتی رہی ہے۔
باراک نے نشاندہی کی کہ آٹھویں دہائی کی لعنت سے صرف یہودی متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کو بھی اپنی آٹھویں دہائی میں خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا، اسی طرح اٹلی آٹھویں دہائی میں ایک فاشسٹ ریاست میں بدل گیا تھا، جرمنی آٹھویں دہائی میں نازی ریاست میں تبدیل ہوا اور آٹھویں دہائی کی لعنت میں گرفتار ہوکر شکست و ریخت سے دوچار ہوا۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ روس کا کمیونسٹ انقلاب بھی آٹھویں دہائی میں تباہی سے دوچار ہوا۔
اسرائیل کے وجود کو لاحق سنجیدہ خطرات
ایہود باراک نے “آٹھویں دہائی کی لعنت” اسرائیل پر بھی پڑنے کے خطرے کا تجزیہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسرائیل ایک مشکل جغرافیائی خطے میں واقع ہے، انہوں نے اسرائیل کے محل وقوع اور آٹھویں دہائی کی لعنت کو باہم جوڑتے ہوئے خبردار کیا کہ اس حال میں اپنے آپ کو سنبھالنا ہمارے لیے بہت ضروری ہو گیا ہے۔
ایہود باراک نے تلمودی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اب “آٹھویں دہائی” میں اس حال میں آپہنچے ہیں کہ ریاست اسرائیل طوفانوں کی زد میں ہے، ایسے میں ہم تلمود کے احکامات کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔
ایہود باراک کی ہی بات کو معروف اسرائیلی صحافی ایری شاویت نے بھی آگے بڑھایا ہے، انہوں نے اپنی کتاب “دی تھرڈ ہاؤس” میں اسرائیل کے قیام کی آٹھویں دہائی میں اس کے وجود کو لاحق واضح خطرات کا ذکر کیا ہے۔
اسرائیلی مصنف اور تجزیہ کار روگل اولفر نے انہی خدشات کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسرائیل نے اپنے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر دستخط کر دیے ہیں، وہ اس کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک سے زائد محاذ جنگ، اندرونی ٹوٹ پھوٹ، بدعنوانی، یہودی تحریکوں کے داخلی تنازعات اور اسرائیلی معاشرے میں ثقافتی تضادات جیسے عوامل اسرائیل کے وجود کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔
خوف و دہشت میں مبتلا اسرائیلی
حالات و واقعات کے پردے سے کیا برآمد ہوتا ہے، یہ تو وقت بتائے گا، تاہم اس وقت مذہبی تعلیمات، تلمودی تشریحات اور تاریخی تجربات کی روشنی میں اسرائیلیوں کی بڑی تعداد کے دماغ پر “آٹھویں دہائی کی لعنت” سوار ہوچکی ہے اور اس سے اسرائیلی سوسائٹی میں بڑے پیمانے پر خوف و دہشت کی فضا پروان چڑھ رہی ہے۔