علمِ فلکیات سے شغف رکھنے والے افراد نے لاتعداد شہابِ ثاقب کی بارش کا نظارہ کرنے کیلئے سالانہ ”شہابِ ثاقب شاور“ کی تصاویر کھینچیں جس کے دوران آسمان ستاروں کی بارش سے جگمگا اٹھا۔
ہر سال شہابِ ثاقب کی بارش کا نظاہرہ دلچسپ فلکیاتی عوامل میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو اگست کے وسط میں عروج پر جا پہنچا۔
ہوتا کچھ یوں ہے کہ ایک ہی گھنٹے میں 100 شہابِ ثاقب یکے بعد دیگرے ٹوٹتے ہیں جو برق رفتاری سے زمین کی جانب بڑھتے ہیں اور زمین کے کرۂ ہوائی میں داخل ہوتے ہی جل اٹھتے ہیں۔
جل اٹھنے والے شہابِ ثاقب اتنی تیزی سے پگھل کر ختم ہوتے ہیں کہ ان میں سے کوئی شہابِ ثاقب شاذ و نادر ہی زمین تک پہنچتا ہے تاہم زیادہ تر شہابِ ثاقب کو تیز روشنی کے باعث دوربین کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے۔
قدیم وقتوں میں شہابِ ثاقب کا آسمان پر نظر آنا بڑے اچنبھے کی بات سمجھی جاتی تھی اور بعض اوقات تو لوگ اسے مذہب سے بھی منسلک کردیا کرتے تھے۔
موجودہ دور میں انسان سمجھ چکا ہے کہ شہابِ ثاقب زمین اور چاند سمیت دیگر اجرامِ فلکی کے مابین تیرتے ہوئے پتھروں اور چٹانوں پر مشتمل ہیں۔
یہ چٹانیں اور پتھر جب اپنے مداروں میں تیرتے ہوئے زمین یا کسی دوسرے سیارے یا چاند کی کشش سے مغلوب ہو کر اس کی جانب لپکتے ہیں تو اس کی فضا میں چمکتے ہوئے ستارے کی مانند نظر آتے ہیں۔
بعض عقائد کے ماننے والے یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ اگر ٹوٹے ہوئے ستارے کو دیکھ کر کوئی دعا کی جائے تو وہ قبول ہوتی ہے، تاہم اسلام میں ایسا کوئی تصور موجود نہیں۔
ٹوٹے ہوئے تارے یا شہابِ ثاقب کی حیثیت اجرامِ فلکی میں ایک دلچسپ نظارے کی سی ہے اور تاریخِ انسانی میں بے شمار مرتبہ ان شہابِ ثاقب کی بارش ہوچکی ہے۔
میٹیور شاور کہلانے والی اس بارش کا نظارہ انتہائی دلفریب ہوتا ہے جسے لوگ دوربینوں کی مدد سے دیکھتے اور فلکیات کے حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں۔
علمِ فلکیات نے وقت کے ساتھ ساتھ بے حد ترقی کی ہے اور اب انسان اپنے نظامِ شمسی سے بہت دور دراز موجود کہکشاؤں کے متعلق علم حاصل کر رہا ہے۔ شہابِ ثاقب بھی اسی علم کا حصہ ہیں۔
فلکیات کے علم نے انسان کو بتایا کہ شہابِ ثاقب تیزرفتاری سے سفر کرتے ہوئے ہوا سے رگڑ کھاتے ہیں اور جب چمک کر جلتے ہیں تو اسی روشنی کو ٹوٹا ہوا ستارہ سمجھ لیا جاتا ہے۔