باجوڑ دھماکہ اور دہشت گردی

کالمز

zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟
Eilat Port Remains Permanently Shut After 19-Month Suspension
انیس (19) ماہ سے معطل دجالی بندرگاہ ایلات کی مستقل بندش

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں ہونے والے تباہ کن بم دھماکے سے پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کا نشانہ بنا جس میں کم از کم 45 افراد جاں بحق جبکہ 150 سے زائد زخمی ہوئے۔

حالیہ مہینوں میں قوم دہشت گردی میں اضافے کا سامنا کر رہی ہے   جس میں معصوم افراد کی جان چلی گئی جبکہ افغانستان میں  محفوظ پناہ گاہیں حاصل کرنے والی کالعدم ٹی ٹی پی نے جمعیت علمائے اسلام (ف) جیسی مذہبی سیاسی جماعت کو نشانہ بنانے والے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

اب تک اس حملے کا الزام داعش پر عائد کیا جارہا ہے جبکہ دیگر عسکریت پسند تنظیمیں بھی سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنا کر دہشت گردی کی راہ پر واپسی کی کوشش کر رہی ہیں۔

پاکستان نے گزشتہ سال سے عسکریت پسندوں کے حملوں میں دوبارہ اضافے کے باعث بھاری جانی نقصان اٹھایا ہے جب سے ٹی ٹی پی اور حکومت کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ اختتام پذیر ہوا۔ جنوری میں پشاور میں ایک مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں 100 سے زائد پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے تھے جس کے بعد کراچی میں پولیس ہیڈ آفس پر فائرنگ ہوئی۔ سیاسی جماعتوں پر حملے شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں جبکہ ٹی ٹی پی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حملوں کی دھمکیاں دی تھیں۔
حکومت اور مسلح افواج نے کئی مواقع پر افغان طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ ان خدشات پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی ہے اور افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پناہ دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ہماری فوجی اور سول قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پڑوسی ملک میں موجود ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں جو ہمارے شہریوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ہماری قومی سلامتی کو کمزور کرتے ہیں۔

باجوڑ میں ہونے والا یہ تازہ ترین سانحہ بھی تشویشناک ہے کیونکہ اس نے اس سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات سے قبل نئے خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ بڑھتے ہوئے سیاسی اور معاشی بحران کے مابین انتخابات کے انعقاد کے امکانات نازک ہیں۔ اگرچہ آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد پاکستان نے سکون کا سانس لیا، لیکن ہماری معاشی پریشانیوں کو پھر سے بحران بنانا شر پسندوں کیلئے چند ماہ کی بات ثابت ہوسکتی ہے۔
عام انتخابات کے امکانات پہلے ہی اہم جماعتوں کے درمیان مہینوں کی مخاصمت اور ریاستی اداروں کی جانب سے سیاست میں ملوث ہونے کے الزامات کی وجہ سے ابر آلود ہیں۔ اگرچہ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ جے یو آئی کو ہی کیوں نشانہ بنایا گیا کیونکہ یہ حکومتی اتحادی ہے، ہمیں انتخابات میں تاخیر اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش سے ہوشیار رہنا چاہئے۔

پاکستان دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور عوام اور سکیورٹی فورسز نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ٹی ٹی پی اور داعش پاکستان کیلئے ایسا مسئلہ بن چکے ہیں جن کے حل کیلئے فوری طور پر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کے واقعات کا خاتمہ ہوسکے۔