زیادہ درجۂ حرارت پر تیار کھانا کھانے سے کینسر کیوں ہوتا ہے؟ سائنسی تحقیق سامنے آگئی

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سائنسدانوں نے زیادہ درجۂ حرارت پر پکی ہوئی غذائیں مثلاً سرخ گوشت اور تلا ہوا کھانا کھانے سے کینسر کی وجوہات پر روشنی ڈالنے کیلئے سیر حاصل تحقیق کی ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسٹینفورڈ کے سائنسدانوں کی زیرقیادت دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کی جانے والی اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کھانا پکانے کے دوران گرمی سے خراب ہونے والے ڈی این اے کو ہاضمے کے ذریعے جذب اور کھانا کھانے والے شخص کے ڈی این اے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

الیکشن کمیشن نے سائبر حملے کے بعد سیکیورٹی الرٹ جاری کردیا

خراب شدہ ڈی این اے کی شمولیت سے تیز آنچ پر پکنے والا کھانا کھانے والوں کے ڈی این اے کو براہ راست متاثر کیا جاسکتا ہے، جو ممکنہ طور پر جینیاتی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کا کھانا کھانے سے کینسر سمیت دیگر جسمانی بیماریاں انسان کو گھیر لیتی ہیں۔
حالیہ سائنسی تحقیق کے دوران اس رجحان کو لیبارٹری میں تیار کیے گئے خلیوں اور چوہوں میں دیکھا گیا، لیکن ابھی تک اس بات کا تعین نہیں ہو سکا کہ انسانوں پر شدید آنچ پر تیار کردہ کھانا کھانے سے کس حد تک مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ سائنسی تحقیق انتہائی اہم ہے۔
تحقیق کے نتائج غذائی انتخاب اور عوامی انتخاب کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ کھانا تیز آنچ پر پکانے سے کھانے میں ڈی این اے کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس خراب شدہ ڈی این اے کا استعمال جینیاتی خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔

مطالعہ کے مرکزی مصنف یونگ وونگ جون ہیں جو پہلے سٹینفورڈ  اور اب کوریا ایڈوانسڈ انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کام کرتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ گزشتہ مطالعوں کے برعکس موجودہ مطالعہ خوراک میں موجود ڈی این اے کی بڑی مقدار کو نمایاں کرتا ہے۔ 

Related Posts