کیا بپر جوائے 1999 کے خطرناک طوفان کا ایکشن ری پلے ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق بپر جوائے 1999 میں آنے والے سمندری طوفان کا ایکشن ری پلے ہے۔

یہ بات انھوں نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ طوفان اسی روٹ پر سفر کر رہا ہے جس پر 1999 والے طوفان نے سفر کیا تھا۔

’اس کی اس وقت رفتار بھی وہ ہی ہے جو کہ 1999 میں تھی اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ طوفان کیٹی بندر سے ٹکرائے گا۔ 1999 والا طوفان بھی کیٹی بندر سے ٹکرایا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیں:

سمندری طوفان کا خطرہ، کراچی کی شاہراہوں پر بل بورڈز تاحال موجود

ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق بپر جوائے بھی تقریبا اسی مقام پر وجود میں آیا جہاں 1999 والا طوفان وجود میں آیا تھا۔ ’ہمیں 1999 والے اور اب کے طوفان میں بہت سے مماثلتیں ملتی ہیں۔‘

بی بی سی کے مطابق کہا جاتا ہے کہ 1999 والا سمندری طوفان اپنی تاریخ کا سب سے بدترین طوفان تھا۔ اس طوفان کے بعد اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹھٹہ اور بدین کو ناقابل تلافی نقصاں پہنچا تھا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 189 لوگ ہلاک جبکہ 150 لاپتہ ہوئے تھے اور 138,000 گھر تباہ ہوئے تھے۔ اس طوفان کی وجہ سے 256,000 ایکٹر زرعی زمین تباہ ہوئی تھی اور متاثرین کو کافی عرصے تکعارضی ریلیف کیمپوں میں رہنا پڑا تھا۔

معظم خان 1999 میں میرین اینڈ فشریز ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹر جنرل کی خدمات انجام دے رہے تھے اور اس وقت کراچی میں تعنیات میں تھے۔

ان کو 1999 والے سمندری طوفان کے واقعات ابھی بھی یاد ہیں۔ وہ بیپر جوائے کو بھی سیٹلائیٹ کے ذریعے سے مانیٹر کر رہے ہیں۔

معظم خان بتاتے ہیں کہ 1999 کے سمندری طوفان کی لہریں 28 فٹ اونچی تھیں جبکہ ’آج اس وقت تک جو کچھ سامنے آیا ہے اس کے مطابق لہریں اس وقت 30 سے 40 فٹ اونچی ہیں۔‘

1999 میں جب طوفان پاکستان کے ساحلی علاقوں سے ٹکرایا تو حفاظتی اقدامات کی کمی کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا کے علاقے سے لے کر بدین تک بہت زیادہ نقصان ہوا تھا۔

معظم خان کا کہنا تھا کہ ’وہ طوفان مئی میں آیا تھا جب کہ یہ جون میں ہے۔ تاریخوں کا معمولی فرق ہے مگر میں سیٹلائیٹ کے ذریعے سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ طوفان ان ہی راستوں پر چل رہا ہے جن راستوں پر 1999 کا طوفان چلا تھا۔‘

معظم خان کا کہنا تھا کہ 1999 کے طوفان نے پاکستان کو ماحولیاتی، معاشی، معاشرتی طور پر ناقابل تلافی نقصاں پہنچایا تھا جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔

’یہ سمندری طوفان انتہائی خطرناک ہوتے ہیں، اگر ان سے بچاؤ کے لیے قبل از وقت مناسب اقدامات نہ ہوں تو نقصانات بڑھ سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت میرا خیال ہے کہ حکام اور لوگ ذہنی طور پر اس طوفان سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔‘

’پیشگی اطلاعات کی وجہ سے تیاری کرنا آسان ہوا ہے جبکہ 1999 میں بروقت اطلاعات دستیاب نہیں تھیں۔‘

Related Posts