سیاسی آلودگی تلے ماحولیاتی آلودگی کا طوفان

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وطن عزیز میں سیاسی آلودگی کے سبب دیگر مسائل کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانا بھی بہت مشکل ثابت ہورہا ہے۔

 ظاہر ہے کہ جب ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو، عوام غربت کی چکی اور مہنگائی کی ابتری میں پس رہے ہوں اور نوبت یہاں تک آجائے کہ دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں بھوک اور افلاس کے مارے لوگوں کیلئے دگرگوں حالات کی وجہ سے ماحولیات کی طرف توجہ دینا مشکل ہے۔ بقول شاعر:
نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جِلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

راقم الحروف گزشتہ کئی برسوں سے تواتر کے ساتھ اپنی تحاریر میں ان مسائل کا احاطہ کرتا رہا ہے کہ سیاسی استحکام ہی معاشی استحکام کا سب سے بڑاذریعہ ہے تاہم جب سیاسی استحکام متزلزل ہے تو دوسری طرف اس کے اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں۔

ماحولیات پاکستان سمیت پوری دنیا کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ آج عالمی سطح پر ماحولیات کے حوالے سے دن منایا جارہا ہے۔ ہر سال 5 جون کو ورلڈ انوائرمنٹ ڈے کا اہتمام کرکے آگاہی دی جاتی ہے اور مملکتوں، افراد اور اداروں کو معلومات دینے کے ساتھ ساتھ ان کے جذبے کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

امسال ماحولیات کے عالمی دن کا مرکزی عنوان پلاسٹک پولوشن ہے، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حکومتوں، اداروں اور افراد کو درست ادراک نہیں ہے۔ یہ پلاسٹک کی ہی شکلیں جب تبدیل ہوتی ہیں تو اس کا اثر نہ صرف انسانوں بلکہ چرند پرند اور سمندری حیات پر بھی پڑتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف صحت بلکہ افزائش نسل اور دماغی صحت پر بھی فرق پڑتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق تقریباً 400 ملین یعنی 40 کروڑ ٹن پلاسٹک دنیا میں پیدا ہوتا ہے جس کا تقریباً 90 فیصد دنیا کے سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں  میں بہہ جاتا ہے ۔

یہ پلاسٹک تحلیل ہوکر اتنے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہوکر یعنی 5 ملی میٹر سے بھی چھوٹی شکل میں بدل جاتا ہے جس کو عام انسانی آنکھ سے دیکھنا بھی ناممکن ہے، پانی کا جزو بن جاتا ہے جبکہ  پلاسٹک میں پائے جانے والے کیمیکلز کینسر، دل کی بیماری اور جنین کی خراب نشوونما سمیت دیگر صحت کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔

اب تو نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ نظر نہ آنے والے مائیکرو پلاسٹک کے ذرّات پانی اور ہوا میں تحلیل ہوکر ناسور کی طرح پھیل رہے ہیں اور انسانی خون کے ٹیسٹ اور ماؤں کے دودھ میں بھی اس کے ذرّات پائے جاتے ہیں۔

مائیکرو پلاسٹک اور پلاسٹک کے یہ ریشے اتنے ہلکے اور چھوٹے ہوتے ہیں کہ ہوا باآسانی انہیں اپنے ساتھ اڑا لے جاتی ہے۔ یہ ذرّات ہمارے روزمرہ استعمال کی ان چیزوں سے پیدا ہوتے ہیں جنہیں بنانے میں مختلف اقسام کا پلاسٹک استعمال کیا جاتا ہے۔

کراچی کے گردونواح میں فضائی آلودگی کی وجہ سے آبی حیات کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ مچھلیاں مرتی جارہی ہیں اور جو زندہ بچ جاتی ہیں وہ اتنی خطرناک ہوجاتی ہیں جو کھانے والوں کو مختلف امراض کا شکار بنادیتی ہیں۔

پولٹری مصنوعات کو دی جانیوالی غذا میں بھی یہ پلاسٹک کے ذرّات شامل ہونے کی وجہ سے انسانوں کی غذا زہر آلود بنتی جارہی ہے اور کراچی میں بیشتر کچرا سمندر کی نذر ہونے کی وجہ سے آبی حیات تیزی سے معدومیت کے خطروں سے دوچار ہے۔

پیرس اکارڈ جیسے معاہدے میں شامل پاکستان جیسے ملک کیلئے اپنی بقا کیلئے اپنا کردار ادا کرنا بہت زیادہ ضروری ہے تاہم یہ اسی صورت ممکن ہے جب ملک میں سیاسی آلودگی کا طوفان تھم جائے اور دیگر مسائل اور مشکلات کی طرف توجہ مبذول کی جاسکے۔

آج کے دور میں ماحولیاتی چیلنجز نہ صرف اداروں بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی کیلئے انتہائی ضروری ہوچکے ہیں جس پر قابلِ عمل اور معنی خیز اقدامات ناگزیر ہیں تاکہ حالات کو بہتری کی طرف لے جایا جاسکے۔

آغا خان یونیورسٹی نے ایک مؤقر ادارے کے طور پر دُنیا بھر میں اپنے تمام ذیلی اداروں میں پلاسٹک کا استعمال ترک کردیا ہے اور ان اقدامات کا اثر 2030ء تک آغا خان کے تمام اداروں پر مرتب ہوگا۔

آج بھی کوئی پلاسٹک کی بوتل آغا خان کے اسپتال، یونیورسٹی یا کسی بھی ادارے میں استعمال نہیں ہوسکتی جو کہ مملکت پاکستان کیلئے ایک عملی نمونہ بن سکتا ہے۔

اس کے علاوہ تعمیرات کے دوران بھی ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے اقدامات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے جس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے آغا خان کے تمام اداروں میں نمایاں فرق آسکتا ہے تو ملک کے تمام اداروں میں بھی اسی عمل کی پیروی کی جاسکتی ہے۔

Related Posts