ترکیہ الیکشن: فیصلہ کن کردار کی حامل خواتین ووٹرز کس کی حمایت کریں گی؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ترکیہ میں اتوار 14 مئی کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ترکیہ میں نوجوانوں کے بعد سب سے زیادہ بااثر خواتین ہیں۔ یہ خواتین کس کو ووٹ دیں گی؟ درج ذیل رپورٹ میں اس سوال کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اس حوالے سے ترکیہ میں خواتین کی انجمنیں ایردوان کے ’’استنبول معاہدے‘‘ سے پیچھے ہٹنے کی بنا پر ان کے حریف کمال قلشدار اوعلو کو ووٹ دینے کے لیے اپوزیشن کو متحرک کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔

ریپبلکن پیپلز پارٹی کے رہنما کمال قلشدار اوعلو چھ جماعتوں کے اپوزیشن اتحاد کی بھی قیادت کر رہے ہیں۔ یہ اتحاد حکمران پارٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی) کی مخالفت کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

طیب ایردوان کی متوقع انتخابی شکست

ترکیہ کے مشہور “کونڈا” اور “میٹروپول” سمیت متعدد تحقیقی اداروں کی جانب سے رواں ہفتے شائع کیے گئے تازہ ترین رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق 60 لاکھ نوجوان ووٹرز کے بعد خواتین ان انتخابات میں سب سے زیادہ با اثر گروپ ہیں۔

فیصلہ کن کردار

خواتین کو دو قسموں میں تقسیم کیا گیا تھا، پہلا ترک صدر ایردوان کے خلاف ہے اور یہ گروپ کمال اوعلو کو ووٹ دے گا۔ خواتین کا دوسرا گروپ ایردوان کا حامی ہے۔
العربیہ کی رپورٹ کے مطابق خواتین کے درمیان اس تقسیم کی وجہ وہ خواتین ہیں جو 2021 کے موسم گرما میں ہونے والے ’’استنبول معاہدے‘‘ سے ملک کی دستبرداری کی حمایت کر رہی ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگار بنگوئی بشیر کے مطابق ’’استنبول معاہدے‘‘ سے دستبرداری کی وجہ سے ایردوان کی خواتین میں مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ اس اقدام سے خواتین کے حقوق کا دفاع کرنے والوں نے ایردوان کی مخالفت کرنا شروع کردی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اتوار کو ملک میں صدارتی انتخاب کے فاتح کا تعین کرنے میں خواتین فیصلہ کن کردار ادا کریں گی۔

خاندانی قانون

بنگوئی بشیر نے مزید کہا کہ خاندان سے متعلق قانون نمبر 6284 اور خواتین کے خلاف تشدد کا مقابلہ انتخابات کی تاریخ کے قریب آنے کے ساتھ ایک بار پھر بحث کا موضوع بن گیا ہے۔ خاص طور پر چونکہ ملک میں خواتین کے قتل اور ان کے خلاف تشدد کا سلسلہ جاری ہے تو اس قانون پر تنازع بڑھ رہا ہے۔ اسی وجہ سے زیادہ تر خواتین اپوزیشن کے امیدوار کو ووٹ دیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں خواتین کی حقیقت سے آگاہ سیکولر خواتین حکومت کی جانب سے خواتین کے تحفظ میں ناکامی کی وجہ سے صدر ایردوان کو شکست دینا چاہتی ہیں۔ خواتین کے حقوق سے متعلق قوانین کے اجرا کا مطلب صرف ان کے خلاف تشدد کو روکنا نہیں ہے بلکہ ان کے وجود کی حفاظت اور سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی زندگی میں ان کی شرکت کو یقینی بنانا بھی ہے۔

6 ملین نئے ووٹرز

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین ان انتخابات میں ایک موثر عنصر ہیں اور وہ پہلی بار انتخابات میں حصہ لینے والے نوجوانوں کے ساتھ ملک میں بنیادی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوں گی۔

اس الیکشن میں ترکیہ میں 6 ملین نئے ووٹرز بھی حصہ لیں گے۔ خاص طور پر چونکہ موجودہ حکومت کا خواتین کے حوالے سے نظریہ یہ ہے کہ خواتین کو اپنے بچوں اور شوہروں کی دیکھ بھال کے لیے گھروں کے اندر رہنا چاہیے۔ خواتین کا ایک بڑا گروپ ایردوان کے حریف کو ووٹ دے کر ایردوان سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔خواتین مردوں سے زیادہ

واضح رہے 14 مئی کو ترکیہ میں ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 6 لاکھ 97 ہزار 843 ہے۔ ان ووٹرز میں سے نصف سے زیادہ خواتین ووٹرز ہیں۔ خواتین ووٹرز کی تعداد 3 کروڑ 7 لاکھ 10 ہزار 790 ہے۔
ترکیہ میں خواتین کے سب سے بڑے گروپ “سٹاپ دی کلنگ آف وومن” پلیٹ فارم نے ایک بیان میں تمام خواتین کو ملک کے صدارتی انتخابات میں کمال اوعلو کو ووٹ دینے کا کہا ہے۔

استنبول کنونشن

حزب اختلاف کے صدارتی امیدوار نے جولائی 2021 میں ایردوان کے اس سے دستبردار ہونے کے بعد “استنبول معاہدے” پر واپس آنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ انتخابی وعدہ زیادہ تر خواتین کو ان کے حق میں ووٹ ڈالنے کی طرف لے آئے گا۔

Related Posts