شیرشاہ کالونی کا انفرا اسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ ممکنہ طوفانی بارشیں شیرشاہ کے مکینوں کیلئے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہیں۔ نالے کچرے کا پہاڑ اور سیوریج لائنیں بری طرح ڈیمیج ہوچکی ہیں۔
سڑکیں بدترین خستہ حالی کا شکار ہیں۔ شیرشاہ کے مسائل پاکستان جتنے قدیم ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی کارکردگی صرف دعووں کی حد تک محدود ہے۔
ضلعی انتظامیہ اور حکمران جماعت بندربانٹ میں مصروف ہے۔ نکاسی آب کا نظام مکمل درہم برہم جبکہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکا جا جارہا ہے۔ صوبائی حکومت نے شہر کراچی کی طرح شیرشاہ کالونی کو بھی لاوارث سمجھ کر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار جمعیت علمائے اسلام شیرشاہ کے امیر مولانا عظیم اللہ عثمان نے ملاقات کیلئے آئے ہوئے اہل علاقہ کے مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
یہ بھی پڑھیں:
حکومت نے ادویات کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافے کی منظوری دے دی
مولانا عظیم اللہ عثمان نے کہا کہ شیرشاہ کالونی زبوں حالی اور بے بسی کی بدترین تصویر بن چکی ہے۔ نالے کچرے کا ڈھیر بن کر موت کے کنویں کا منظر پیش کررہے ہیں۔ جابجا کچرے کے ڈھیر مہلک بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ممکنہ طوفانی اور شدید بارشوں کی پیشگوئی کے باوجود بلدیاتی ادارے اور ضلعی انتظامیہ اب تک حرکت میں نہیں آئی۔ شیرشاہ کے بڑے نالوں کی صفائی نہ ہوئی تو کئی جانیں جاسکتی ہیں۔ سیوریج لائنیں ابل رہی ہیں جبکہ نمائندے اختیارات نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں۔
مولانا عظیم اللہ عثمان نے کہا کہ شیرشاہ کے مکینوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ سڑکیں موہنجو داڑو کا منظر پیش کررہی ہیں۔ کھلے مین ہولز اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر بنے کھڈوں نے بچوں بوڑھوں اور خواتین کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
پاکستان کی نامور خاتون آرکیٹکٹ برطانیہ کے اعلیٰ ترین اعزاز کیلئے نامزد
انہوں نے سندھ حکومت اور وزیر بلدیات سندھ سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ شیرشاہ کے باسیوں پر رحم کرتے ہوئے نکاسی آب اور سڑکوں کی تعمیر کے لئے فوری اور جامع اقدامات کئے جائیں تاکہ شیرشاہ کے باسی سکھ کا سانس لے سکیں۔