اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کا لانگ مارچ روکنے کا حکم دینے کی استدعا مسترد کردی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کا کہنا ہے کہ فی الحال توہینِ عدالت کا یا شوکاز نوٹس جاری نہیں کر رہے۔ عمران خان جواب دیں، پھر جائزہ لیں گے توہینِ عدالت ہوئی یا نہیں۔
مریم نواز کے ٹوئٹ پر پوری قوم لعن طعن بھیج رہی ہے، شیخ رشید
عدالتِ عظمیٰ نے عمران خان کے وکیل بابر اعوان اور فیصل چوہدری کوبھی نوٹسز جاری کیے۔ دونوں پی ٹی آئی رہنماؤں کو نوٹسز عمران خان کی جانب سے 25 مئی کی یقین دہانی پر جاری کیے گئے۔ چیف جسٹس نے جائزہ لینے کا عندیہ دے دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمیں جائزہ لینا ہے کہ کیا عمران خان کی جانب سے ڈی چوک نہ آنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، یا نہیں۔ حکومتی الزامات پر عمران خان کا مؤقف سننا چاہتے ہیں۔
عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پولیس اور حساس اداروں کی رپورٹس کا جائزہ لیا ہے۔ پولیس، آئی ایس آئی اور آئی بی رپورٹس پر ہی سب اداروں کا انحصار ہے جبکہ عدالتی حکم 25مئی کو شام 6بجے آیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان نے 6 بج کر 50 منٹ پر ڈی چوک کا اعلان کیا اور دوسرا اعلان 9 بج کر 54 منٹ پر کیا۔ پی ٹی آئی نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست دی تھی۔ عمران خان نے عدالتی حکم سے قبل بھی ڈی چوک کا اعلان کیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی ڈی چوک جانے کی کال کو توہینِ عدالت قرار دیتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان مختص جگہ سے گزر کر بلیو ایریا آئے اور ریلی ختم کی۔ اور ایچ نائن سے 4کلومیٹر آگے آ کر ریلی ختم کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یقین دہانی عمران خان کی جانب سے وکلاء نے دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے بیان سے لگتا ہے انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کیا گیا۔ عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے کا کہا۔ اصل سوال یہ ہے کہ عمران خان کو کیا بتایا گیا۔ عمران خان عدالت کو واضح کریں کس نے کیا کہا تھا۔ عدالت نے حکومت کی لانگ مارچ روکنے کی استدعا مسترد کردی۔