ایران میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پیر کو دسویں روز میں داخل ہو گئے۔ ابھی تک احتجاج میں کمی آنے کے آثار نظر نہیں آرہے۔
ارن انٹرنیشنل نیٹ ورک کے مطابق ایرانی ٹیچرز یونینز کی کوآرڈینیٹنگ کونسل نے اساتذہ اور طلباء سے پیر اور بدھ کو سکول نہ جانے کی اپیل کردی۔ کونسل نے اپنے بیان میں کہا کہ عوامی مظاہروں کو دبانے، اسکولوں کو فوجی بیرکوں میں تبدیل کرنے اور سڑکوں پر طلبہ اور مظاہرین کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔
مذہبی ریاست مسترد
اتوار کی شام تہران اور ملک کے شمال اور مغرب کے دیگر شہروں میں “مذہبی ریاست مسترد ” اور ’’مرگ بر آمر‘‘ کے نعروں کی گونج سنائی دی گئی۔ مظاہرین نے ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے حوالے سے موت کے نعرے لگائے۔
41 سے زائد ہلاکتیں
16 ستمبر میں مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے شمال میں ایک صوبے میں 700 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ پورے ملک میں گرفتار کئے گئے افراد کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔
ایک تصدیق شدہ اطلاع کے مطابق اس احتجاجی لہر میں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز پر مشتمل 41 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
خیال رہے ایران میں حالیہ احتجاج 16 ستمبر کو اس وقت شروع ہوا تھا جب ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی کو نامکمل حجاب کرنے کے الزام میں ایرانی اخلاقی پولیس نے گرفتار کیا اور بعد میں دوران حراست مہسا امینی کی موت ہوگئی تھی۔
2019 کے بعد کا سب سے بڑا احتجاج
مہسا کی موت کے بعد شروع ہونے والے یہ احتجاجی مظاہرے 2019 میں ایندھن کی قیمت میں اضافے کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد سب سے بڑا احتجاج ہے۔ رائٹرز کے مطابق 2019 کے ان مظاہروں میں 1500 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اب مہسا امینی کی موت کے بعد ایران بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لوگوں نے شخصی آزادیوں اور خواتین کے لباس سے متعلق پابندیوں پر غصہ کا اظہار کیا ہے۔ معاشی بحران اور حکومت کی جانب سے نافذ سخت قوانین سے بھی ایرانییوں میں اشتعال ہے۔
حالیہ مظاہروں میں خواتین نے بھی بڑے پیمانے پر حصہ لیا۔ بعض احتجاجی خواتین نے سروں پر لئے گئے دوپٹوں کو نذر آتش کرکے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ بعض خواتین نے سرعام اپنے بال کاٹ ڈالے۔ مشتعل ہجوم نے ایرانی سپریم لیڈر کے خاتمے کا بھی مطالبہ کردیا۔