اقوام متحدہ نے افغان لڑکیوں پر تعلیم کی بندش کو شرمناک قرار دیدیا

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اقوام متحدہ نے افغان لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کو افسوس ناک اور شرمناک قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور طالبان پرزوردیا ہے کہ وہ افغانستان بھرمیں لڑکیوں کے ہائی اسکول دوبارہ کھول دیں۔

گذشتہ سال اگست میں طالبان نے اقتدار پرقبضہ کرنے کے چند ہفتے کے بعد 18 ستمبر2021 کوملک بھر میں لڑکوں کے ہائی اسکول دوبارہ کھول دیے تھے لیکن ثانوی اسکولوں کی طالبات کی کلاسوں میں شرکت پر پابندی عاید کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:

شاہنواز دھانی اور نسیم شاہ کی گانا گنگناتے ہوئے ویڈیو وائرل

اس کے چند ماہ کے بعد 23 مارچ کو وزارتِ تعلیم نے لڑکیوں کے اسیکنڈری اسکول کھولے تھے لیکن چند گھنٹے کے اندر طالبان قیادت نے ان اسکولوں کو دوبارہ بند کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے بعد سے اب تک ملک بھر میں دس لاکھ سے زیادہ نوعمر لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔

مشن کے قائم مقام سربراہ مارکس پوتزل نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ایک افسوس ناک اور شرمناک اقدام کی برسی ہے حالانکہ اس سے اجتناب کیا جاسکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ لڑکیوں کی ایک نسل اور خود افغانستان کے مستقبل کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے، ایسی پابندی کی دنیا میں کہیں اور مثال نہیں ملتی۔

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیریس نے بھی طالبان پر زور دیا کہ وہ اس پابندی کو منسوخ کریں۔ گوٹیرس نے ٹویٹر پرایک بیان میں کہا کہ ’’کھوئے ہوئے علم اور مواقع کا ایک سال کبھی واپس نہیں آئے گا۔لڑکیوں کا تعلق اسکول سے ہے۔ طالبان کوانھیں اسکول میں واپس آنے کی اجازت دینا چاہیے۔‘‘

طالبان کے متعدد حکام کا کہنا ہے کہ یہ پابندی صرف عارضی ہے لیکن انھوں نے ان بندشوں کے اپنے بہانے اور جواز بھی پیش کیے ہیں۔رواں ماہ کے اوائل میں مقامی ذرائع ابلاغ نے وزیر تعلیم کے حوالے سے کہا تھا کہ یہ ایک ثقافتی مسئلہ ہے کیونکہ بہت سے دیہی لوگ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی بیٹیاں اسکول جائیں۔

طالبان نے گذشتہ سال 15 اگست کو غیرملکی افواج کے افراتفری میں انخلا کے دوران میں اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔طالبان نے 1996 سے 2001 تک افغانستان پر اپنی سخت اسلام پسند حکومت کے مقابلے میں نرم ورژن کا وعدہ کیا تھا۔

لیکن کچھ ہی دنوں میں انھوں نے لڑکیوں اور خواتین پر اسلام کے بارے میں اپنے سخت تصور کی تعمیل کرتے ہوئے سخت پابندیاں عاید کرنا شروع کر دیں اور خواتین کو عوامی زندگی سے مؤثر طریقے سے بے دخل کردیا۔

طالبان نے لڑکیوں کے لیے ہائی اسکول بند کرنے کے علاوہ خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں سے بھی روک دیا ہے اورانھیں عوامی سطح پر حجاب اوڑھنے ترجیحاً روایتی افغان برقع پہننے کا حکم بھی دیا ہے۔بعض اطلاعات کے مطابق خاندانوں اور قبائلی رہنماؤں کے دباؤ کی وجہ سے کابل اور قندھار کے مرکزی طاقت کے مراکزسے دوردراز واقع صوبوں میں لڑکیوں کے کچھ ہائی اسکول کھلے رہے ہیں۔

Related Posts