مہنگائی انارکی کا سبب بن سکتی ہے!

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بدترین مہنگائی کی مار سہنے والے پاکستان کے غریب عوام کیلئے ایک اور بری خبر یہ ہے کہ آٹے کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کراچی اور کوئٹہ میں آٹے کے 20 کلو کے تھیلے کی قیمت 2400  روپے تک پہنچ گئی ہے۔

ادارہ شماریات  کے مطابق کوئٹہ میں آٹا 120 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے، 15 دن کے دوران کوئٹہ میں آٹے کا 20 کلو کا تھیلا مزید 480 روپے مہنگا ہوا، 15 دن کے دوران کراچی میں آٹے کا 20 کلو کا تھیلا مزید 260 روپے مہنگا ہوا۔ بنوں میں آٹےکا 20کلو کا تھیلا 1950 روپے تک میں فروخت ہورہا ہے، پنجاب کے بڑے شہروں میں آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 980 روپے تک ہے، اسلام آباد میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 980 روپے تک ہے۔

آٹا اور دانہ گندم انسانی زندگی کی بقا کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کیلئے خوراک اور غذا کی ضرورت ہے اور خوراک اور غذا میں آٹا اور گندم کم از کم ہمارے اس خطے میں ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر ہمارے محاوروں تک کے پیٹ نہیں بھرتے، چہ جائیکہ انسان کی بقا کی ضرورت آٹے کے بغیر پوری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتیں ہر ممکن کوشش کرکے آٹے اور گندم کی قیمت کو اس سطح پر رکھتی ہیں کہ اس کی رسائی معاشرے کے ہر کہ و مہ تک بہ آسانی ممکن ہو۔ یہ حکومتوں کا فرض ہے اور اچھی اور ذمے دار حکومتیں اس فرض سے کبھی غافل نہیں رہتیں، مگر بد قسمتی سے یہاں کا بابا آدم ہی نرالا ہے۔ حکومت کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ عوام کیسے جی رہے ہیں اور کس طرح دو وقت کے کھانے کیلئے روز خشکی پر محنت و مشقت کی کشتی چلاتے ہیں۔ 
مہنگائی عوام کی طاقت و سکت سے باہر ہو چکی ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومتوں کی مجرمانہ غفلت کے باعث مہنگائی ہے کہ بری طرح بے قابو ہوئی جا رہی ہے اور ایسی کوئی اتھارٹی نظر نہیں آتی جو کسی طرح حرکت میں آکر اپنے وجود کی افادیت ثابت کرسکے۔ عوام کو مہنگائی کےعفریت کے سامنے بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے، چنانچہ جس کا جتنا بس چل رہا ہے اپنے شعبے میں وہ اتنا ہی آزادی اور بے خوفی سے عوام کو لوٹنے میں مصروف ہے۔

جنرل ایوب خان پاکستان کے پہلے فوجی آمر اور ایک طاقتور حکمران تھے، مگر کہتے ہیں کہ ان کی طاقتور حکومت کے ستونوں کو چینی کی قیمت میں محض ایک آنے کے اضافے کے خلاف عوام کے احتجاج نے ہلاکر رکھا۔ ایک آنے کے اضافے پر عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور احتجاج کیلئے سڑکوں پر آگئے، جس نے ایوب خان کی حکومت ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آج پھر تاریخ کے اہم موڑ پر قوم کھڑی ہے۔ مہنگائی نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے، جس کے نتیجے میں ہر شخص کی آنکھوں میں حکومت اور حکمرانوں سے شدید نفرت اور غم و غصے کے انگارے بھڑکتے نظر آ رہے ہیں۔ ادھر ملکی معیشت تباہی کے دھانے پر ہے اور اس کو بحال ہونے کیلئے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت نے مہنگائی قابو نہ کی اور بالخصوص آٹے کی قیمت میں کمی لانے کے انتظامات پر توجہ نہ دی تو عوامی غیظ و غضب کا جو لاوا معاشرے میں پک رہا ہے، وہ کچھ دیگر سیاسی اور خارجی عوامل سے پھٹ سکتا ہے اور ایسا ہوا تو حکومت ہی نہیں ریاست کیلئے بھی معاملات سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا۔

Related Posts