کابل: درجنوں افغان خواتین نے دارالحکومت میں ”روٹی، کام، آزادی” کے نعرے لگاتے ہوئے طالبان کی جانب سے اپنے حقوق پر سخت پابندیوں کے خلاف احتجاج کیا۔
اگست میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان نے افغانستان میں دو دہائیوں کی امریکی مداخلت کے دوران خواتین کو حاصل ہونے والے معمولی فوائد کو واپس لے لیا ہے۔
مظاہرے کے دوران خواتین وزارت تعلیم کے سامنے جمع ہوئیں تو مظاہرین نے ”تعلیم میرا حق ہے! سکول دوبارہ کھولو!“ کے نعرے لگائے۔
مظاہرین نے احتجاج کو ختم کرنے سے پہلے چند سو میٹر تک مارچ کیا کیونکہ حکام نے سادہ لباس میں طالبان جنگجوؤں کو تعینات کیا تھا۔ اس دوران مظاہرے میں شریک خاتون زولیا پارسی نے کہا کہ ”ہم ایک اعلامیہ پڑھنا چاہتے تھے لیکن طالبان نے اس کی اجازت نہیں دی،”۔
مظاہرین کے مطابق طالبان نے کچھ لڑکیوں کے موبائل فون چھین لیے اور ہمیں اپنے احتجاج کی تصاویر یا ویڈیوز لینے سے بھی روکا۔”
واضح رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہزاروں لڑکیوں کو سیکنڈری اسکولوں سے باہر کردیا گیا ہے، جب کہ خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں میں واپس آنے سے روک دیا گیا ہے۔
ملک کے سپریم لیڈر اور طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کہا ہے کہ خواتین کو عام طور پر گھروں میں رہنا چاہیے۔ اگر انہیں عوام میں باہر جانے کی ضرورت ہو توانہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے چہروں سمیت خود کو مکمل طور پر چھپا لیں،۔
اس حکم نامے نے بین الاقوامی سطح پر غصے کو جنم دیا، اس دوران طالبان کے پہلے دور حکومت کی بازگشت سنائی دی، جب انہوں نے خواتین کے لیے برقع کو لازمی قرار دیا۔
مزید پڑھیں:مسجدِ اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں کا فلسطینی نمازیوں پر حملہ، درجنوں زخمی