غیرمعیاری پیکنگ ملکی وبین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے،میاں زاہد حسین

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نوے ارب ڈالرکی درآمدات کرنے والی معیشت کبھی مستحکم نہیں ہوسکتی،میاں زاہد حسین
نوے ارب ڈالرکی درآمدات کرنے والی معیشت کبھی مستحکم نہیں ہوسکتی،میاں زاہد حسین

کراچی: نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ آٹے اورسیمنٹ کی پیکنگ بہتر بنا کر سالانہ نوے ارب روپے سے زیادہ بچائے جا سکتے ہیں۔

اگر آٹافوڈ گریڈ پولی پروپلین تھیلوں میں پیک کیا جائے تو پچاس ارب روپے مالیت کا آٹا بچایا جا سکتا ہے جو اس وقت غیر معیاری بوریوں اور تھیلوں میں پیکنگ کی وجہ سے ضائع ہو رہا ہے۔

اتنی بڑی مقدار میں آٹا ضائع ہونے سے اس پر کی گئی سرمایہ کاری بھی ضائع ہو جاتی ہے جسے روکا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سیمنٹ کی بھی معیاری تھیلوں میں پیکنگ کو یقینی بنانے کی صورت میں چالیس ارب روپے مالیت کی سیمنٹ کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گندم کی کل پیداوار کا ساٹھ فیصد پانچ دس اور بیس کلو کے تھیلوں میں بطور آٹا فروخت ہوتی ہے جس میں زیاں کا سارا بوجھ عوام پرمنتقل ہوتا ہے۔

مروجہ تھیلوں کی تیاری میں پلاسٹک کے فضلے اور کیلشیم کاربونیٹ کی ملاوٹ سے صحت عامہ کے مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ ایک عام پاکستانی ماہانہ گیارہ کلو آٹا استعمال کرتا ہے جس میں زہریلے اجزاء شامل ہوتے ہیں۔

گھٹیا کوالٹی کے تھیلے تیار کرنے والے ان پر مضر کیمیکلز سے بنے رنگ سے چھپائی بھی کرتے ہیں جس کا استعمال عوام کے قتل عام کے مترادف ہے۔ غیر معیاری پیکنگ کی وجہ سے نہ صرف آٹا اور سیمنٹ ضائع ہو رہے ہیں بلکہ یہ ملکی قوانین اور عالمی ادارہ صحت کے قوانین کی بھی خلاف روزی ہے اس لئے اس سلسلہ کو فوری طور پر روکا جائے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ ملک میں فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ بڑھ رہا ہے، آبادی کی اکثریت پیٹ بھر کرکھاناکھانے کے قابل نہیں رہی ہے اور گندم درآمد کرنے پر بھاری زرمبادلہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے اس لئے آٹے کا ضیاں روکا جائے۔

میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ پاکستان میں آٹے کے تھیلوں کی ڈیمانڈ آٹھ سو ملین تک ہے اور آٹے کی پیداوار اور نقل و حمل کے دوران غیر معیاری تھیلوں سے لیکیج کی وجہ سے تین سے پانچ فیصد آٹا ضائع ہو رہا ہے کیونکہ پیکنگ کے لئے غیر معیاری اور مضر صحت میٹریل استعمال کیا جا رہا ہے۔

سیمنٹ کے تھیلے بھی غیر معیاری کاغذ اور ری سائیکل شدہ پلاسٹک سے بنائے جا رہے ہیں جنھیں بعد میں آٹے کی پیکنگ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس سے سیمنٹ کی کچھ مقدار آٹے میں شامل ہو کر بیماریوں کا سبب بن رہی ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق آلودہ غذا دو سو بیماریوں کا سبب ہے۔

مزید پڑھیں: ڈیجیٹل بینکوں کے لائسنسوں کی درخواستیں، اسٹیٹ بینک کو بھرپور ردعمل ملا، اعلامیہ

میاں زاہد حسین نے کہا کہ پہلے سے موجود قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے تو سالانہ اربوں روپے کا آٹا سیمنٹ اور دیگر اشیاء بچائی جا سکتی ہیں جبکہ صحت عامہ کی صورتحال بھی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔

Related Posts