وزیراعظم کا دورہ روس

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے سفارتی بائیکاٹ کے باوجودوزیر اعظم عمران خان سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت اور چینی قیادت کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بعدبیجنگ کے دورے سے واپس آئے ہیں۔

اس دورے کی کامیابی کا اندازہ سی پیک کے دوسرے مرحلے سے لگایا جائے گا جس کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے اور چینی کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔

یہ بات یقینی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا مغرب کے حوالے سے مؤقف تیزی سے تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ اب وہ روسی صدر پیوٹن کی دعوت پر فروری کے آخر میں ماسکو کا تاریخی دورہ کرنے والے ہیں، جس سے وہ دو دہائیوں میں ملک کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر اعظم ہیں۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سردمہری کا شکاررہے لیکن حالیہ برسوں کے دوران ان میں گرمجوشی آئی ہے اورمثبت سفارتکاری نے بالآخر عمران خان کے دورے کی راہ ہموار کر دی ہے۔

اس دورے کو مغرب کے لیے پاکستان کے جھکاؤ کا واضح اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اقتدارسنبھالنے کے بعد اب تک وزیر اعظم عمران خان کو فون کال نہیں کی۔

پاکستان نے افغان انخلاء کے بعد امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرنے کی مخالفت بھی کی۔ یہ دورہ اس لیے بھی اہم ہے کہ یوکرین کے بحران پر ماسکو اور مغرب کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوچکا ہے۔

روس کی طرف پاکستان کا محور تجارت اور معیشت کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں تعاون کے وسیع امکانات ہیں اور پاکستان کی توجہ گیس پائپ لائن منصوبے پر مرکوز ہے۔

پاکستان کو گیس کی قلت کا سامنا ہے اور پاکستان بڑھتی ہوئی طلب کے باعث پیداوار بڑھانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ اب دونوں ممالک کے درمیان یہ دورہ یقینی ہے اور پاکستان کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

روس اور چین نے مغرب کا مقابلہ کرنے کے لیے شراکت داری کا اعلان کیا ہے۔ رہنماؤں نے نیٹو، تائیوان اور یوکرین پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعاون میں کوئی ’ممنوعہ علاقے‘ نہیں ہیں۔ روسی صدرپیوٹن نے اپنے حالیہ دورہ چین کے دوران 117اعشاریہ 5 بلین ڈالر کے توانائی کے سودوں کا بھی اعلان کیا۔

طاقتور اتحاد کی طرف پاکستان کا جھکاؤ بھارت کو متوازن کرنے کے لیے جنوبی ایشیا میں جمود کو تبدیل کر دے گا۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ماسکو نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو کم کرے گا لیکن جغرافیائی سیاست کی حرکیات اور علاقائی سلامتی میں ڈرامائی تبدیلیوں نے پاکستان کے کردار کو تبدیل کر دیا ہے۔

Related Posts