کراچی: ایک چونکا دینے والے انکشاف میں یہ معلوم ہوا ہے کہ 7.6 ملین خواتین کی آبادی والے شہر کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں صرف پانچ خواتین میڈیکو لیگل آفیسرز (MLOs) کام کر رہی ہیں۔
یہ انکشاف چار سالہ بچی حرمین کے پوسٹ مارٹم میں 10 گھنٹے کی تاخیر کے بعد سامنے آیا۔ شہر کے شاہ لطیف ٹاؤن میں ڈاکوؤں اور سیکیورٹی گارڈز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے دوران کمسن بچیکو سر میں گولی لگی جس کے باعث وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔
خاتون ایم ایل او کی جانب سے تاخیر کے بعد معصوم بچی کے لواحقین کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) میں اس کے پوسٹ مارٹم کے لیے 10 گھنٹے سے زیادہ انتظار کرنا پڑا۔
جناح اسپال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی رائے:
معصول بچی کے پوسٹ مارٹم میں تاخیر پر تبصرہ کرتے ہوئے جے پی ایم سی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر شاہد رسول نے کہا کہ یہ ایک افسوس ناک واقعہ تھا اور ایم ایل او کو کسی بھی اسپتال سے بلایا جا سکتا تھا، اس میں تاخیر کی ضرورت نہیں تھی۔
رات کی شفٹ میں جے پی ایم سی میں کوئی خاتون ایم ایل او نہیں:
ایم ایل او سمیعہ سید نے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ وہ لاش کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں اور شام تک رپورٹ سامنے آئے گی۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ کراچی میں صرف پانچ خواتین ایم ایل اوز ہیں اور یہاں تک کہ جناح اسپتال میں رات کی شفٹ کے لیے ایک خاتون ایم ایل او بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”میں اور ایک اور خاتون میڈیکل آفیسر آٹھ گھنٹے ڈیوٹی انجام دیتے ہیں،” انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے پہلے ہی رات کی شفٹ کے لیے ایک میڈیکو لیگل آفیسر کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔
کیا ڈیڑھ ملین خواتین کے لیے صرف ایک خاتون MLO قابل استعمال ہے:
کراچی جس کی آبادی تقریباً 7.6 ملین سے زیادہ خواتین پر مشتمل ہے، صرف پانچ کام کرنے والی خواتین ایم ایل اوز کا مطلب ہے کہ فی 1.5 ملین خواتین کے لئے صرف ایک خاتون ایم ایل او دستیاب ہے جو کہ تشدد، اسٹریٹ کرائم اور خواتین کے خلاف تشدد کا شکار شہر کے لیے ایک اہم طبی اور قانونی خلا ہے۔
کراچی میں خواتین ایم ایل اوز کی کل نو منظور شدہ آسامیاں ہیں۔ تین بڑے اسپتالوں، سول اسپتال، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر اور عباسی شہید اسپتال میں پانچ خواتین ان عہدوں پر کام کر رہی ہیں۔ باقی چار عہدوں میں سے تین خالی ہیں، جبکہ ایک افسر کو مفرور قرار دیا گیا ہے۔
1996 کا فیصلہ:
1996 کے ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے خواتین کی پرائیویسی اور وقار کو برقرار رکھنے کے لیے مرد ایم ایل اوز پر خواتین کا پوسٹ مارٹم کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ صرف خواتین ایم ایل او خواتین کا پوسٹ مارٹم کر سکتی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کی جانب لگائی پابندی کے باعث مرد ایم ایل او اس حوالے سے کوئی مدد نہیں کرسکتے۔
صورتحال سے نمٹنے کے لیے مارچ میں محکمہ صحت سندھ نے 46 خواتین میڈیکل افسران کو مختلف سرکاری اسپتالوں میں بطور ایم ایل او کام کرنے کے لیے تفویض کیا، لیکن یہ مستقل پوسٹنگ نہیں تھیں۔
ان میں سے صرف 16 خواتین ڈاکٹرز نے پولیس سرجن آفس سے تربیت حاصل کی اور کام کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود ایم ایل اوز کی کمی کے باعث حادثات اور تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے طویل انتظار کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔
کراچی میں خواتین ایم ایل او کی کمی کا معاملہ معصوم حرمین کے معاملے کے بعد اٹھا ہے، مگر یہ مسئلہ ابھی حل طلب ہے، سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر ٹھوس اقدامات کرے تاکہ اسپتال میں خواتین ایم ایل اوز کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔