دنیا میں نو ایسی ریاستیں ہیں جو یا تو ایٹمی ہتھیاروں کی حامل ہیں یا جن کے بارے میں وسیع طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کی مالک ہیں۔
العربیہ کے مطابق سب سے پہلے جن ممالک نے جوہری ہتھیار حاصل کیے، وہ پانچ “اصل جوہری طاقتیں” تھیں : امریکا، روس، چین، فرانس اور برطانیہ۔
پانچ اصل جوہری طاقتیں
یہ پانچوں ممالک “جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے” (NPT) پر دستخط کنندہ ہیں۔ یہ معاہدہ ان ملکوں کو جن کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں، اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ ایسے ہتھیار نہ بنائیں اور نہ حاصل کریں، جب کہ جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک پر لازم ہے کہ وہ “نیک نیتی سے تخفیفِ اسلحہ کے لیے مذاکرات” کریں۔
بھارت اور پاکستان
بھارت اور پاکستان، جو علاقائی حریف ہیں، دونوں نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ ان دونوں نے گزشتہ برسوں کے دوران اپنی جوہری صلاحیتیں تعمیر کیں۔ بھارت نے 1974 میں پہلا جوہری تجربہ کیا، اور پھر 1998 میں دوسرا تجربہ کیا، جس کے چند ہی ہفتوں بعد پاکستان نے بھی اپنے جوہری تجربات کر ڈالے۔
شمالی کوریا
شمالی کوریا نے 1985 میں معاہدے میں شمولیت اختیار کی، لیکن 2003 میں “امریکی جارحیت” کو جواز بناتے ہوئے اس سے دست برداری کا اعلان کر دیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک وہ کئی جوہری تجربے کر چکا ہے، جن کا آغاز 2006 سے ہوا۔
اسرائیل
اسرائیل نے بھی اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ اس نے کبھی سرکاری طور پر اپنے جوہری ہتھیاروں کے وجود کو تسلیم نہیں کیا، مگر عام طور پر یہ باور کیا جاتا ہے کہ وہ ان کا حامل ہے۔
ایران کا کیا معاملہ ہے؟
ایران کا موقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پُر امن مقاصد کے لیے ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا بھی یہی اندازہ ہے کہ فی الحال تہران سرگرمی سے جوہری بم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا، تاہم حالیہ برسوں میں اس نے 60 فی صد خالصی یورینیم افزودہ کیا، جو اس سطح (90 فی صد) کے کافی قریب ہے جسے جوہری ہتھیاروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اس ہفتے شائع ہونے والے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کے سالانہ جائزے کے مطابق، جنوری 2025 تک ان نو ممالک کے پاس موجود فوجی جوہری ہتھیاروں کی تعداد درج ذیل ہے :
روس : 4309
امریکا : 3700
چین : 600
فرانس : 290
برطانیہ : 225
بھارت : 180
پاکستان : 170
اسرائیل : 90
شمالی کوریا : 50