پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایسے وقت میں جب انسانیت جنگ، نسل کشی اور تیزی سے بگڑتے ہوئے موسمی حالات سے دوچار ہے، پرتگال اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات کی 75ویں سالگرہ محض ایک رسمی سنگِ میل نہیں بلکہ ایک ایسا موقع ہے جو دوطرفہ تعلقات کو ازسرِنو متعین کرنے کی ضرورت اور گنجائش فراہم کرتا ہے۔

جب دنیا کی نظریں غزہ کے انسانی المیے، یوکرین جنگ اور مشرقِ وسطیٰ کی وسیع تر بدامنی پر جمی ہوئی ہیں، ایسے میں پرتگال جیسی مستقل مزاج اور اصولی آواز کا سنائی دینا جو کثیرالجہتی، سفارت کاری اور امن کی وکالت کرتی ہے نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ ناگزیر بھی۔ پرتگال، جو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے 2027–28 کے انتخاب میں نشست کا خواہاں ہے، اپنی توجہ تنازعات کے حل، ماحولیاتی تحفظ اور ثقافتی مکالمے پر مرکوز کر رہا ہے۔

پاکستان خود بھی ایک تاریخی اور جغرافیائی موڑ پر کھڑا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، اس کی اسٹریٹجک اہمیت اور متوازن مگر پیچیدہ خارجہ پالیسی نے اسے مجبور کر دیا ہے کہ وہ روایتی اتحادیوں سے ہٹ کر اپنی عالمی حیثیت کو نئے سرے سے منظم کرے۔ اس تناظر میں پرتگال نہ صرف ایک مؤثر شراکت دار بلکہ ایک قابلِ تقلید ماڈل بھی ثابت ہو سکتا ہے، خصوصاً گرین ٹیکنالوجی، ثقافتی انضمام اور یورپی سفارت کاری جیسے شعبوں میں۔

پاکستان میں پرتگال کے سفیر فریڈریکو سلوا نے دوطرفہ تعلقات میں ایک خوشگوار تازگی اور حرکت پیدا کی ہے۔ ان کی براہِ راست شمولیت چاہے وہ پاکستان کے کاروباری طبقے سے ہو، ثقافتی اداروں سے یا نوجوان طلبہ و فنکاروں سے رسمی سفارت کاری کے روایتی دائروں سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ وہ محض پرتگال کے نمائندے نہیں بلکہ عوامی سطح پر رابطے کے علمبردار بن کر سامنے آئے ہیں۔

حال ہی میں اسلام آباد میں عزت مآب سلوا صاحب کی جانب سے منعقدہ پرتگال کی یومِ آزادی کی تقریب ایک ایسی رنگا رنگ محفل تھی جو باہمی ہم آہنگی کی شاندار عکاس تھی۔ تقریب میں پاکستانی ارکانِ پارلیمنٹ، سفارت کاروں، کاروباری شخصیات، سول سوسائٹی اور پرتگالی پاکستانی کمیونٹی کے نمائندگان نے شرکت کی۔ فن کے مظاہرے، پرتگالی و پاکستانی ذائقوں سے بھرپور پکوان اور دونوں ملکوں کے افراد کی موجودگی نے اس محفل کو محض رسمی تقریب کے بجائے ایک زندہ دل اجتماع میں بدل دیا۔ اپنے خطاب میں سفیر سلوا نے بجا طور پر کہا کہ پرتگال میں مقیم پاکستانی کمیونٹی ہمارے دو طرفہ تعلقات کی بڑھتی ہوئی گہرائی کی زندہ مثال ہے۔ ہماری شراکت داری باہمی اعتماد، احترام اور تعاون پر قائم ہے اور آج ہمارے مضبوط سیاسی و اقتصادی تعلقات اس وژن کا ثبوت ہیں۔

اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم اب بھی نسبتاً محدود ہے، لیکن اس میں اضافے کے امکانات روشن ہیں۔ پرتگال میں 20,000 سے زائد پاکستانی مقیم ہیں، جو مختلف شعبوں میں سرگرم ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ اس بنیاد پر ایک جامع تجارتی فریم ورک تشکیل دیا جائے، خصوصاً قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں جیسے ہوا اور شمسی توانائی کا شعبہ، جس میں پرتگال عالمی سطح پر صفِ اول میں ہے۔

دیگر ممکنہ شعبوں میں زرعی صنعت (جس میں پاکستان کی وسیع زرعی زمینیں اور پرتگال کی خوراک کی پراسیسنگ اور پیکجنگ مہارت باہمی تعاون کی راہیں نکال سکتی ہیں) ٹیکسٹائل کے شعبے (جہاں پاکستان کی بڑے پیمانے پر پیداوار اور پرتگال کی ڈیزائننگ و جدت آمیزی میں باہمی تعاون ممکن ہے) اور سیاحت و ثقافتی تبادلے شامل ہیں۔ پاکستان کے ثقافتی خزانے کو پرتگال کی جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی دلچسپی سے جوڑا جا سکتا ہے۔ اسٹارٹ اپس اور ڈیجیٹل معیشت میں بھی دونوں ممالک کے نوجوان ابھرے ہوئے ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعاون میں موسمیاتی تناظر کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔ پرتگال کی ماحولیاتی قیادت اور پاکستان کی ماحولیاتی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، مشترکہ اقدامات جیسے گرین فنانس، فضلہ کی ری سائیکلنگ اور پانی کے تحفظ جیسے شعبے باہمی تعاون کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔

عالمی طاقت کا توازن اب کسی قیاس کا موضوع نہیں بلکہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ چین کا اقتصادی عروج، روس کی عسکری خوداعتمادی اور BRICS و شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسے اتحاد مغربی بالادستی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ایسے میں پرتگال اور پاکستان دونوں کو ہوشیاری سے اپنی جگہ بنانا ہوگی۔

یورپی یونین کا رکن اور کثیرالجہتی سفارت کاری کا داعی ہونے کے ناطے پرتگال مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل بننے کی مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان بھی اپنی سفارتی حکمتِ عملی میں تنوع لا کر یکطرفہ انحصار سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔

یہ دونوں ممالک مل کر ایک منصفانہ، کثیر القطبی عالمی نظام کی وکالت کر سکتے ہیں جو خودمختاری کا احترام کرے، پائیدار ترقی کو فروغ دے، اور نام نہاد انسانی بنیادوں پر کی جانے والی سامراجی مداخلتوں کی مخالفت کرے۔

کسی بھی مؤثر سفارتی رشتے کی اصل بنیاد عوام ہوتے ہیں۔ پرتگال میں پاکستانی برادری نہ صرف یکجا ہے بلکہ مقامی معیشت اور ثقافت میں متحرک کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ کمیونٹی تعلیمی تبادلوں، ثقافتی تعاون اور پارلیمانی روابط کے لیے بھی ایک محرک بن سکتی ہے۔

جیسا کہ سفیر سلوا نے اپنی تقریر میں کہا، پاکستان اور پرتگال کے تعلقات باہمی اعتماد اور احترام پر قائم ہیں۔ اب وقت ہے کہ اس بنیاد پر مستقبل بین حکمتِ عملی تشکیل دی جائے، جو عوام، کرۂ ارض اور امن کو مرکزیت دے۔

ایک ایسی دنیا میں جہاں جارحیت اور بے حسی غالب ہیں، پرتگال پاکستان تعلقات امید کی ایک کرن بن کر سامنے آتے ہیں۔ یہ تعلق ظاہر کرتا ہے کہ اگر وژن ہو اور اقدار کی بنیاد پر قیادت ہو، تو درمیانے درجے کی اقوام بھی ایک زیادہ انسانی، منصفانہ اور پائیدار عالمی نظام کی تشکیل میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ جب دنیا محض بیانات سے آگے بڑھنے والی سفارت کاری کی متلاشی ہے، یہ شراکت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمدردی، شمولیت، اور تخلیقی اشتراک آج بھی عالمی امور میں نہ صرف جگہ رکھتے ہیں بلکہ اثر و نفوذ بھی رکھتے ہیں۔

نوٹ: مصنف ڈیوکام سینٹر برائے جیوپولیٹیکل اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ترقیاتی امور کے ماہر اور خطے میں تعاون و ماحولیاتی سفارت کاری پر توجہ رکھنے والے پالیسی تجزیہ کار ہیں۔

ان سے رابطے کا ای میل: devcom.Pakistan@gmail.com

Related Posts