پاکستان میں ابھی بھی افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کی میزبانی کررہا ہے، پڑوسی ملک افغانستان میں جاری جنگوں کی وجہ سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ افغان بے گھر ہیں ۔ ایشیا میں سب سے بڑی مہاجر آبادی افغانوں پر مشتمل ہے اور وطن میں جاری تشدد اور سیاسی عدم استحکام انہیں واپس جانے سے روکنے کی بڑی وجہ ہے۔
افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام کو 4 دہائی مکمل ہونے پرپاکستان اگلے ہفتے ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے۔1979 میں سوویت یونین کی جانب سے افغانستان میں جارحیت کے باعث 30 لاکھ سے زائد افغانوں کو پاکستان میں پناہ لینی پڑی تھی۔افغان پناہ گزینوں کی وجہ سے پاکستان کو منشیات کی سپلائی اور کلاشنکوف کلچر سمیت بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تاہم پاکستان نے مثالی مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا۔
یہ کانفرنس ایک ایسے اہم موڑ پر منعقد کی جاری ہے جب افغانستان میں جاری تنازعہ کے خاتمے کے لیے افغان امن معاہدے کے حوالے سے کوششیں جاری ہیں۔ جب تک افغانستان میں امن بحال نہیں ہوتا افغان مہاجرین اپنےوطن واپس نہیں جاسکیں گے۔کانفرنس میں افغان مہاجرین کی رضا کارانہ واپسی اور افغان امن عمل میں درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
افغان مہاجرین کی وطن واپسی ایک مشکل کام ہے کیوں کہ پچھلے سات ماہ میں5 ہزار سے بھی کم مہاجرین کو واپس بھیجا جاسکے گا۔ بہت سارے افغانیوں نےپاکستان میں غیر قانونی طور پر جائیدادوں پر قبضہ کر رکھا ہے ، ان کے کنبے بھی یہاں آباد ہیں اور ان کی وطن واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔انہیں شائد پاکستانی شہریت ملنے کی امید ہے یا وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں ۔افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل پہلے بھی کئی بار ناکام رہا اور حکومت نے متعدد مواقع پر ان کی وطن واپسی کے لئے تاریخ کو آگے بڑھایا ہے۔ کانفرنس میں یقینی طور پر افغان مہاجرین کی وطن واپسی کلیدی امور میں شامل ہوگی۔
افغان مہاجرین کی موجودگی سے ان خدشات نے جنم لیا ہے کہ اس سےملک کی آبادی کی صورتحال میں تبدیلی آئے گی۔ حکومت سندھ نے صوبے میں افغان نژاد افراد کی رجسٹریشن اور ان کی رہائش کے لئے کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ قانونی چیلنجزسے نمٹنے کے لئے سندھ میں تمام افغان تارکین وطن کا دستاویزاتی عمل مکمل ہونا ضروری ہیں لیکن اگر شہر میں انہیں آزادانہ طور پر نقل مکانی کرنے کی اجازت دی جائے تو صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے۔
گذشتہ سال دسمبر میں پاکستان نے جنیوا میں عالمی مہاجرین کے عالمی کنونشن کی میزبانی کی تھی تاہم پناہ گزینوں کے مسائل کا مناسب حل تلاش کیا جائے۔اجلاس میں اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا تھا کہ دنیا اس حوالے سے مناسب اقدامات کرنے میں ناکام ہے اور صرف مٹھی بھر ممالک مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ دنیا کو مہاجرین کے انسانی حقوق کی توثیق اور ان سے مزید تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حالت زار کو سمجھتا ہے ، پاکستان نے بے حد فراخ دلی سے مہاجرین کی مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا ہے ، لیکن چار دہائیوں کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ افغان تارکین وطن کو ان کے آبائی وطن واپس بھیجاجائے۔