گندم کے ذخائر ختم ہونے کے باعث ضلع راولپنڈی کی 4فلور ملیں بند

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سندھ میں آٹے کی سرکاری قیمت 65 روپے فی کلو مقرر، نوٹیفکیشن جاری
سندھ میں آٹے کی سرکاری قیمت 65 روپے فی کلو مقرر، نوٹیفکیشن جاری

راولپنڈی:گندم کے ذخائر ختم ہونے کے باعث ضلع راولپنڈی کی 4فلور ملیں بند ہو گئیں،اوپن مارکیٹ میں گندم دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے عید الضحیٰ کے بعد50فیصد فلور ملیں بند ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔جس سے آٹے کے شدید بحران کا خدشہ پیدا ہو گیاہے۔

ضلع بھر کے لئے صرف چند دن کاگندم کا ذخیرہ باقی رہ جانے پر ضلعی فوڈ کنٹرولر نے پنجاب کے6بڑے پیداواری اضلاع سے گندم مانگ لی اس ضمن میں ضلعی فوڈ کنٹرولر راولپنڈی نے مظفر گڑھ، جھنگ،راجن پور، سرگودھا،ڈیری غازی خان اور میانوالی کے ضلعی محکمہ خوراک کو گندم کی فراہمی کی استدعا کر دی ہے۔

ذرائع کے مطابق Allocation-2018/1365کے ذریعے پنجاب کے6بڑے اضلاع کے فوڈ کنٹرولرز کو بھیجے گئے تحریری لیٹرمیں کہا گیا ہے کہ ضلع راولپنڈی میں گندم کا ذخیرہ 19332.771میٹرک ٹن باقی رہ گیا ہے جس میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے اور موجودہ دستیاب ذخیرہ راولپنڈی کی فلور ملوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے انتہائی ناکافی ہے۔جس سے راولپنڈی میں آٹے کے شدید بحران کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

لیٹر میں استدعا کی گئی ہے کہ ضلع راولپنڈی میں آٹے کی مطلوبہ ضروریات پوری کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر گندم کی سپلائی یقینی بنائی جائے اس ضمن میں رابطہ کرنے پر پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب کے سابق وائس چیئر مین رضا احمد شاہ نے تصدیق کی کہ گندم کی سپلائی کے ٹھیکے جاری ہونے کے باوجود ڈیزل مہنگا ہونے کے بعد ایک طرف ٹھیکیداروں نے سپلائی کم کر دی ہے۔

دوسری جانب حکومت نہ تو خود گندم امپورٹ کر رہی ہے اور نہ ہی نجی شعبے کو گندم امپورٹ کرنے کی اجازت ہے اور چونکہ راولپنڈی گندم کا ایک غیر پیداواری ضلع ہے جس وجہ سے صوبائی حکومت نے اس وقت ضلع راولپنڈی کو ضلع بہاولنگر کی جانب موڑ دیا ہے انہوں نے کہا کہ اس وقت ضلع راولپنڈی میں مجموعی طور120فلور ملوں میں سے 4پہلے ہی بند ہو چکی ہیں۔

جبکہ باقی ماندہ ملوں کو بھی صرف200سے220بوری یومیہ فراہم کی جارہی ہے جو کسی بھی مل میں صرف2گھنٹے کی پسائی کے لئے کافی ہے حالانکہ ضلع میں وافر مقدار میں آٹے کی فراہمی اور قیمتیں کنٹرول رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک مل یومیہ 18گھنٹے پسائی کا عمل کرے۔

انہوں نے کہا اس وقت گندم صرف اسٹاکسٹ کے پاس موجود ہے جہاں اس کا ریٹ 2200روپے من تک پہنچ چکا ہے اور اگرملوں کو اسی قیمت پر گندم فراہم کی گئی تو آٹے کے20کلو گرام تھیلے کی قیمت1200روپے تک پہنچ جائے گی۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ 20سے25لاکھ ٹن گندم حکومت خود امپورٹ کرے اور 15سے20لاکھ ٹن گندم امپورٹ کے لئے نجی شعبے کو اجازت دے انہوں نے واضح کیا کہ اگر اوپن مارکیٹ سے ملوں کو گندم میسر نہ آئی یا حکومت نے فلور ملوں کے کوٹے میں اضافہ نہ کیا تو عید کے بعد راولپنڈی میں آٹے کا شدید بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

Related Posts