مایہ ناز ادیب اور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے مداح پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ان کا 108واں یومِ پیدائش منا رہے ہیں جبکہ محض 43 سال کی عمر میں انتقال کرنے والے سعادت حسن منٹو نے دنیائے ادب پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
آج سے تقریباً 65 سال قبل دارِ فانی کو الوداع کہنے والے سعادت حسن منٹو کی ادبی تخلیقات آج بھی دنیائے فن کے مایہ ناز اذہان کو دعوتِ فکر دیتی ہیں جبکہ انہوں نے ایسے مضامین، افسانے اور خاکے تحریر کیے جن کی اہمیت سے آج بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
نامور ادیب سعادت حسن منٹو کے ہاں جدید افسانے کا وہ منفرد اور بےباک اسلوب ملتا ہے جو ان کے بعد آنے والے کسی بھی ادیب کے حصے میں نہ آسکا جبکہ 11 مئی 1912ء کو بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع لدھیانہ میں جنم لینے والے سعادت حسن منٹو آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔
شخصیت کے اعتبار سے سعادت حسن منٹو اپنے ہم عصر ادیبوں میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ دیگر ادیبوں کے برعکس ان کی شخصیت وقت کے لمحہ لمحہ بدلتے ہوئے طرزِ عمل کو اپنا کر فیشن کے ساتھ چلنے کا ہنر جانتی تھی تاہم پاکستان آمد کے بعد ان کا وقت انتہائی کسمپرسی میں گزرا۔
پاکستان میں آنے کے بعد سعادت حسن منٹو اپنے جانثار دوستوں سے محروم ہوچکے تھے اور مفاد پرست عناصر نے انہیں گھیر لیا تھا جس کے باعث محرومی، بدحالی اور کسمپرسی نے صرف 43 سال کی عمر میں ان کی جان لے لی اور وہ اپنی زبردست تخلیقات دنیا میں چھوڑ کر داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔
منٹو نے مجموعی طور پر 3 نسلوں کو اپنے فن سے متاثر کیا ہے۔ اس کے باوجود کہ سعادت حسن منٹو اب ہمارے درمیان نہیں رہے، ان کی مایہ ناز تخلیقات سے موجودہ نسل بھی اتنی ہی دلچسپی سے فیضیاب ہو رہی ہے جتنی دلچسپی سے بیسویں صدی عیسوی میں ان کی تخلیقات کا مطالعہ کیاجاتا تھا۔