سی پیک کے 10 سال

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

چین اور پاکستان 2 عظیم دوست ممالک ہیں جو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی 10ویں سالگرہ منا رہے ہیں جسے پاک چین دوستی میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

سی پیک کو پاک چین دوستی کی بنیاد کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ 10 سالہ دور میں اس پراجیکٹ کے دائرۂ کار اور حقائق پر غور کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس پراجیکٹ سے پاکستان اور چین نے کیا کھویا اور کیا پایا۔

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر چین کے بیان کے مطابق  آغاز سے لے کر اب تک 25 اعشاریہ 4 ارب ڈالر کی براہِ راست سرمایہ کاری ہوئی جس سے 1 لاکھ 92 ہزار ملازمتیں پیدا ہوئیں، 6 ہزار میگا واٹ بجلی بنائی گئی، 150 قومی شاہراہیں تعمیر ہوئیں اور قومی ترسیل میں 886 کلومیٹر تک اضافہ ہوا۔

وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سی پیک پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے جبکہ سابق عمران خان دور اور اس سے سابقہ حکومتیں بھی سی پیک منصوبے کے معاشی طور پر انتہائی دور رس اثرات کو بیان کرتی رہی ہیں جسے پاکستانی قوم انتہائی امید کی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔

اگرچہ ماہرینِ اقتصادیات چینی سرمایہ کاری کے پاکستان پر مثبت اثرات سمجھتے اور بیان کرتے ہیں تاہم یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ سی پیک منصوبے کے اہم اہداف تاحال حاصل نہیں کیے جاسکے کیونکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک جارحانہ منصوبہ تھا۔

منصوبے کا مقصد چین کو ایشیا اور بحیرۂ ارب تک رسائی فراہم کرنا تھا جس پر سرمایہ کاری کا تخمینہ 46 ارب ڈالر لگایا گیا تھا جس سے چین کو گوادر کے ذریعے تجارت کیلئے مواقع میسر آسکتے تھے۔ 2013 میں شروع کیے جانے والے بہت سے منصوبوں کی آخری تاریخ کا تخمینہ 2020 تک لگایا گیا تھا۔

تاہم پاکستان پاکستان میں صنعتیں لگانے کیلئے چینی سرمائے کی منتقلی نہیں ہوسکی جبکہ موجودہ حکومت نے منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر کی ذمہ داری سابق عمران خان حکومت پر عائد کی ہے جبکہ اس میں عالمی حالات، کورونا اور چینی شہریوں کی پاکستان کی جانب نقل و حمل پر پابندی جیسے معاملات بھی شامل ہیں جس کی وجہ عالمی وبا تھی۔ 

لیکن چینی قیادت نے اس قسم کے الزامات کو مسترد کیا ہے کہ شعبوں کے انضمام میں تاخیر سے سرمایہ کاری سست ہوئی۔ سی پیک منصوبے میں چین کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے جس میں پیش رفت نہ ہونے پر پاکستان سے زیادہ چین کو فکر مند ہونا چاہئے کیونکہ منصوبے پر معاشی اعتبار سے بھی چین کے اربوں ڈالرز لگے ہوئے ہیں۔

حوصلہ افزا طور پر چین کسی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیتا اور عالمی سطح پر اس کی یہ پالیسی سراہی بھی جاتی ہے جبکہ پاکستان کو سیاسی و اقتصادی استحکام سے ہمکنار کرنا خود چین کے اپنے مفاد میں ہے۔ پاکستان کی حکومت کو بھی چاہئے کہ چین کی سی پیک میں سرمایہ کاری کو معمولی نہ سمجھے کیونکہ سی پیک کی کامیابی پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں میں مستقبل مزاجی سے مشروط ہے۔

صنعتوں کو چین سے پاکستان منتقل کرنے کا چینی منصوبہ ایک بار پھر اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی میں بہت سے مواقع ضائع کیے جاچکے ہیں۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان کو سی پیک کے ثمرات حاصل ہوں تو سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار تیر کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ 

 

Related Posts