شدید قیاس آرائیوں اور کئی دن کی سرکاری خاموشی کے بعد وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے آخر کار اس بات کی تصدیق کردی کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سابق ترجمان احسان اللہ احسان حراست سے فرار ہوگیا ہے۔ یہ ایک اعلیٰ سطح کی توثیق ہے جس سے تمام افواہیں دم توڑ جائیں گی لیکن اس سے نئے سوالات جنم لیتے ہیں کہ ایک عسکریت پسند فرار ہونے میں کیسے کامیاب ہوگیا۔
وزیرداخلہ نے اس حوالے سے معلومات فراہم نہیں کی صرف اتنا کہا کہ یہ خبر درست اور ریاست احسان اللہ احسان کے فرار سے آگاہ ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس حوالے سےکیا کوششیں کی جارہی ہیں تو انہوں نے کہا کہ بہت کچھ ہوچکا ہے۔ فرار ہونے والے عسکریت پسند نے خود ہی اعلان کیاتھا کہ وہ فرار ہوچکا ہے اور سوشل میڈیا پر وہ دعویٰ کررہا ہے کہ وہ ترکی میں ہے۔ اگر جہ وہ افغانستان میں بھی ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے وہ ملکی سیکیورٹی اداروں کی پہنچ سے دور ہے۔
احسان اللہ احسان نے تین سال قبل پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے اور توقع کی جارہی تھی کہ اسے اس کے جرائم کی سزا دی جائے گی تاہم اس کے فرار ہونے سے قبل اس ہر ممکن معلومات حاصل کی گئی تھی ۔ عسکریت پسند نے یہ بھی دعوی کیاتھا کہ اس کا سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ معاہدہ ہے جس پر عمل نہیں ہورہا تھا ۔ دوسری جانب پاکستان کی حکومت اور فوجی عہدیداروں کی خاموشی نے مزید سوالات کو جنم دیا ہے۔
سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے نے 2017 میں اعلان کیا تھا کہ احسان اللہ احسان نے خود کو سیکیورٹی اداروں کے حوالے کردیا ہے۔ انہوں نے اس سے انکار کیا تھا کہ ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسند کو بچا یا کوئی سودا کیا جائے گا لیکن اس کے بجائے وہ اپنے جرائم کا جوابدہ ہوگا۔ فوج نے اس کی گرفتاری کو اس ثبوت کے طور پر استعمال کیا ہے کہ دہشت گردہار مان رہے ہیں اور خود کو سیکورٹی فورسز کے حوالے کررہے ہیں۔
احسان اللہ احسان دہشت گردی کی متعدد سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ جب تحریک طالبان پاکستان نے وادی سوات پر کنٹرول حاصل کیا تھا تو اس نے خود ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔وہ اے پی ایس کے قتل عام میں بھی ملوث تھا جو انتہائی خوفناک حملہ تھا اور جس میں 134 سے زیادہ اسکول کے بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھےتھے۔ متاثرہ افراد کے اہل خانہ نے سب سے پہلے ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان کے فرار پر تشویش کا اظہار کیا اور اس حوالے سے عدالت میں درخواست دائر کی ۔وہ احسان اللہ احسان کو اس کے جرائم پر مثالی سزا دینے کا مطالبہ کررہے تھے لیکن اس کا فرار ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کرے گا۔
اب چونکہ ٹی ٹی پی کے ترجمان کے فرار کی تصدیق ہوچکی ہے لہٰذا اس حوالے سے وضاحت ہونی چاہیے کہ کن حالات میں عسکریت پسند فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ قوم کو اس حوالے سے مکمل تفصیلات فراہم کی جانی چاہیے اور اس سلسلے میں مکمل تفتیش ہونی چاہیے جبکہ فرار ہونے والے دہشت گرد کو پکڑنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔