عصمت دری پر پردہ ڈالنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا: جامی مور

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Jami Moor

خواتین کی جانب سے ہالی ووڈ کے مشہور فلم پروڈیوسر ہاروی وائن اسٹائن پر عصمت دری اور جنسی زیادتیوں کے الزامات نے ہاروی وائن اسٹائن کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا ، ہاروی وائن اسٹائن کیخلاف شروع ہونیوالی مہم می ٹو نے ہالی ووڈ کے بااثر پروڈیوسر ہاروی وائن اسٹائن کو 23 سال قید کی سزاء دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ سلسلہ یہیں تمام نہیں ہوا ، 29 اکتوبر 2019ء کو جامی مورکے نام سے مشہور پاکستان کے معروف فلمساز جمشید رضا محمود کے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کی ایک اہم شخصیت پر جنسی استحصال کے الزام نے می ٹو مہم کار خ موڑ دیا۔

کچھ لوگوں نے جامی مور کا مذاق اڑایا، کچھ لوگوں نے ان پر یقین کیا ، کسی نے اپنی حفاظت میں نا اہلی پر سوال اٹھایا، کچھ لوگوں نے میڈیا ہاؤس کے ساتھ ذاتی مخاصمت کا شاخسانہ قرار دیاتاہم جامی مور اپنے موقف پر قائم رہے۔میڈیا ہاؤس نے معاملے کی غیرجانبدار چھان بین پر اتفاق کیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ کہانی بھی سیاست اور معاشی بحران کے نیچے دب گئی لیکن مہینوں بعد آج بھی جامی مورانصاف کے طلبگار ہیں، ہم نے میڈیا ہاؤس کے ساتھ تنازعہ اورمعاملے پر پیشرفت کے حوالے سے جامی مور سے گفتگو کا اہتمام کیا ۔

ایم ایم نیوز: آخر کس نے اور کیسے آپ کو جنسی استحصال کرنیوالے شخص کا نام سامنے لانے کی ہمت دی؟
جامی مور: ہم لاہوتی میلہ کے حوالے سے کام کررہے تھے جو پچھلے سال سے جاری تھا۔ فروری 2019 میں ایک لڑکی نے ایک فلم ہدایتکار سے متعلق ایک خط دیا جس نے اسے ہراساں کیا تھا،ہم نے تفتیش شروع کردی اورمی ٹو میں شامل ہوگئے ۔مجھے یہ احساس نہیں تھا کہ ہمارے پاس اپنے مسائل بھی ہیں ،میرے بہت سے دوست اس کیس کی پیروی کرنے پر مجھ سے ناراض تھے۔
اس کے بعد لاہور کے ایک پروفیسر کا ایک کیس بھی سامنے آیا جس پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا اور اس نے خود کشی کرلی تھی۔ لاہوتی واقعے کے بعد ہمارے خلاف یہ الزامات لگائے گئے کہ ہم جھوٹے الزامات لگاتے ہیں۔ اس کے بعد میں نے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایم ایم نیوز: کیا آپ پر خاموش رہنے کیلئے دباؤ تھا؟
جامی مور: معاشرہ آپ پر خاموش رہنے کے لئے دباؤ ڈالتا ہے کیونکہ آپ مرد ہیں چنانچہ میں کئی سال خاموش رہا۔ اصل دباؤ بعد میں آیا تھا جب میں نے خود کو می ٹو مہم کا حصہ بنایا ۔ایک یہ تاثر بھی عام تھا کہ جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی لڑکیاں جھوٹے الزامات عائد کرتی ہیں اور ہتک عزت کے نوٹس یا دھمکیاں  ملنے پر اپنے بیان سے مکر جاتی ہیں۔اس وجہ سے میں نے کھل کربات کرنا شروع کی کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔

ایم ایم نیوز: کیا میڈیا ہاؤس نے انکوائری کا جو دعویٰ کیا تھا وہ پورا کیا؟
جامی مور: ڈان نے اپنی ویب سائٹ پر انکوائری کا اعلان کیا تھا لیکن کچھ نہیں ہوا۔ 7مہینے ہوچکے ہیں اور مجھے ابھی تک اپنی روداد بیان کرنے کیلئے کسی نے نہیں بلایا، بس معاملے کو دبانے کیلئے بڑے پیمانے پر کور اپ کیا گیا ۔ میرے سچ پر نئے الزامات لگے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ڈان کے خلاف مجھے لانچ کیا ہے لیکن میں یہ واضح کرتا چلوں کہ میں ڈان کے خلاف نہیں ہوں تاہم ڈان کی طرف سے انکوائری نہ ہونے پر مایوسی ہوئی۔

ایم ایم نیوز: کیا آپ کے خلاف ہتک عزت کی کارروائی شروع کی گئی ؟
جامی مور: لاہوتی میلہ اور حمید ہارون کے حوالے سے میرے خلاف 2 کارروائیاں زیر التوا ہیں،میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیرون ملک مقیم تھا اس لئے مقدمات میں التواء ہوا اور بعد میں کورونا وائرس کا بحران پیدا ہوگیا جس کی وجہ سے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔

ایم ایم نیوز:یہ کہا جاتا ہے کہ میڈیا ہاؤس کو نشانہ بنانے کیلئے آپ کو ایجنڈا دیا گیا ، آپ ان الزامات کا کیا جواب دیتے ہیں؟
جامی مور:میرے الزامات کے پیچھے فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ، میرے الزامات کو غلط رخ دیکر معاملے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، ڈان کوداخلی طور پر تحقیقات کرنا چاہیے تھی جو نہیں کی جارہی۔سچائی کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے، مجھ جیسے لبرل ، ترقی پسند شخص کو ہر دن وضاحتیں پیش کرنا پڑتی ہیں۔ کوئی بھی صحافی اس مسئلے کو اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ ابتدائی طور پر کچھ خواتین صحافی حوصلہ افزاء لگیں لیکن پھر انہوں نے بھی منہ پھیر لیا۔
جب اسٹیبلشمنٹ نے مجھے انکوائری کے لئے بلایا تو میں نے ایک صوتی نوٹ بھیجا جو میں نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر پن کر رکھا ہے۔ میں نے انہیں واضح طور پر بتایا کہ میں خود ڈان کے خلاف نہیں ہوں۔ اس آڈیو ریکارڈنگ کو توجہ مل رہی ہے لیکن اصل مسئلے کو یکسر نظرانداز کیا جارہا ہے۔

ایم ایم نیوز:میڈیا ہاؤس کے ساتھ لڑائی میں آپ کی زندگی اور کیریئر پر کیا اثر پڑا ؟
جامی مور: ڈان کا نام لینے کے بعد میری زندگی پراس کا بہت گہرا اثر پڑا ۔ میرے بہت سے قریبی دوست جنہیں ان مشکل وقتوں میں میرے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا انہوں نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔ اس سے مجھ پر سخت اثر پڑا ہے اور مجھے تکلیف ہوئی ہے۔
جب آپ کسی طاقتور شخص کا نام لیتے ہیں تو پھر قدرتی طور پر بہت سے لوگ آپ سے دور ہوجاتے ہیں، کچھ جارحانہ ہوجاتے ہیں جبکہ کچھ پریشان ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں مرد ان مسائل پر بات نہیں کرتے ہیں۔ اس کا اثر مجھ پر پڑا اور مجھے ملک چھوڑنا پڑا اور فی الحال صورتحال برقرار ہے۔

ایم ایم نیوز: آپ نے جو صدمہ برداشت کیا اس سے نجات کیسے حاصل ہوئی؟
جامی مور:اس واقعہ نے میری صحت پر منفی اثرات مرتب کئے ، شروع میں ،میں نے سوچا کہ میں ایک آدمی ہوں ، میں کچھ بھی کرسکتا ہوں ، مجھے لڑتے رہنا چاہیے۔ میں  اپنے دکھوں کے خلاف لڑتے ہوئے ٹوٹ گیا۔ اس نے مجھے ،میرے دماغ اور میری روح کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ میری اہلیہ ایک معالج ہیں ، وہ سب کچھ جانتی تھی اور میری اہلیہ نے اس مشکل سے گزرنے میں میری مدد کی ۔
ایک بار جب آپ جان لیں کہ آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے تو آپ کاکام قدرے آسان ہوجاتا ہے۔ جب میں نے یہ بات کی تو میں نے اپنے دوستوں کو کھو دیا، یہاں تک کہ صحافیوں نے بھی میرا ساتھ نہیں دیاجس کی وجہ سے معاملات بہت خراب ہو گئے۔ میں ابھی بھی اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوشش کررہا ہوں۔

ایم ایم نیوز: لوگوں کے لئے یہ خیال کرنا اتنا مشکل کیوں ہے کہ مرد کے ساتھ بھی زیادتی کی جاسکتی ہے؟
جامی مور: یہ ایک ثقافتی مسئلہ ہے، کسی مرد کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے لوگوں کو اس بات پر قائل کرنا بہت مشکل ہے،مجھ پر پیسوں کی خاطر یہ سب کرنے کا الزام لگایا گیا، میرے دوست میرے خلاف ہوگئے اور میرے لئے زندگی ایک ڈراؤنا خواب بن گئی ، میرے لئے ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ مجھے ملک چھوڑنا پڑا۔

ایم ایم نیوز: پاکستان میں مردوں کیساتھ زیادتی کے معاملے پر رائے کیسے تبدیل کی جاسکتی ہے؟
جامی مور: مجھے نہیں معلوم۔ ہم ابھی بھی نابالغ بچیوں کی شادیوں کو بند کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ہمارے معاشرے میں ایک منفی رجحان پایا جاتا ہے، لوگوں نے میری بات سننے اور مجھ پر اعتماد کرنے کی بجائے یہ پوچھنا شروع کردیاکہ میں نے واقعے کے دوران جوابی کارروائی کیوں نہیں کی۔ لوگوں کی ذہنیت تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے، لوگوں کو دوسروں کے درد کا احساس ہی نہیں ہوتا، اس سوچ کو بدلنے میں  بہت وقت لگے گا۔

ایم ایم نیوز: آج آپ کیلئے انصاف کا کیا مطلب ہوگا؟
جامی مور: ڈان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ تحقیقات چاہتے ہیں،انکوائری کو منصفانہ انداز میں چلانے کے لئے  حمید ہارون کو ایک طرف ہونا چاہئے۔ وہ فوج کو مورد الزام قرار دے کر معاملے کودبانہیں سکتے، ڈان کے بہت سارے صحافی جیسے سیرل المیڈا ، ضرار کھوڑو اور مبشر زیدی کے پاس میری فوج سے ملاقات کی ریکارڈنگ موجود ہے لیکن پھر بھی انہوں نے میرا ساتھ نہیں دیا۔

ایم ایم نیوز: عصمت دری کے متاثرین کو کیا آپ ابھی بھی خاموش رہنے کا مشورہ دینگے؟
جامی مور: میں نے بھی خاموش رہنے پر غور کیا۔ میرے دوستوں نے مجھے چھوڑ دیا اور اس صورتحال کی وجہ سے شدید پریشان تھے اس لئے ان کو اس معاملے میں شامل کرنا مناسب نہیں تھالیکن آپ خاموش نہیں رہ سکتے۔ آپ کو بولنے کی طاقت ضرور ملنی چاہئے لیکن سب سے پہلے آپ کو خود کو اس کیلئے تیار  کرنا ہوگا۔ مجھے واقعتاً کبھی معلوم نہیں تھا کہ اس دن تک جب تک یہ میرے ساتھ نہیں ہوا اس وقت تک کتنی زندگیوں کو وحشیانہ عصمت ریزی کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔یہ آپ کی ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے اور آپ کو مکمل طور پر تباہ کردیتا ہے۔

جامی مورکے معاملے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، پاکستان میں جنسی استحصال ایک حقیقت ہے۔ جامی مورکے معاملے کی سچائی کو منظرعام پر لایا جانا چاہئے تاکہ ایسے انسانیت سوز واقعات کا تدارک ہوسکے۔

Related Posts