پاکستان جنسی زیادتی کے جرائم پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دوران ڈکیتی لڑکی سے اجتماعی زیادتی، میڈیکل رپورٹ میں زیادتی کی تصدیق
دوران ڈکیتی لڑکی سے اجتماعی زیادتی، میڈیکل رپورٹ میں زیادتی کی تصدیق

پاکستان تاحال جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام میں ناکام ہے، ایک خاتون ہی مرد کو جنم دیتی ہے اُس پر ستم ظریفی یہ کہ خاتون کو ہی عصمت دری اور کا نشانہ بنادیا جاتا ہے، جبکہ پاکستان میں اب یہ واقعات عام ہوچکے ہیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی خاتون کو شادی کا جھانسہ دے کر لاہور بلایا جاتا ہے اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے، یہ ایک سنگین جرم ہے اس پر قانون کو فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

واقعہ کیسے رونما ہوا؟

لاہور میں دو الگ الگ واقعات میں ایک خاتون کو مبینہ طور پر متعدد بار زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، یہ خبرآج سامنے آئی،جس کا مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 (زیادتی)، 109 (زنا بل الجبر کی حوصلہ افزائی) اور 201 (جرم کے ثبوت کو غائب کرنے، یا غلط معلومات فراہم کرنے) کے تحت درج کیا گیا ہے۔

متاثرہ لڑکی نے اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے کہا کہ وہ پب جی گیم کھیلتی تھی، اس دوران اس کی دوستی لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک شخص حارث سے ہوئی۔

لڑکی کے مطابق حارث نے مجھے لاہور آنے کے لیے کہا اور کہا کہ ہم شادی کر لیں گے، متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ وہ 23 نومبر کو ٹرین کے ذریعے لاہور پہنچی۔ حارث اسے روز ہوٹل لے گیا جہاں اس نے تین دن تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس نے شادی کرنے سے بھی انکار کر دیا اور اسے 26 نومبر کو ریلوے اسٹیشن پر اتار کر چلا گیا۔ متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ جب وہ اسٹیشن پر انتظار کر رہی تھی تو وحید اور حسن نامی دو افراد نے اسے نوکری دلانے کا وعدہ کیا۔

اس نے بتایا کہ ملزمان اسے سرور روڈ پر واقع ایک گھر میں لے گئے جہاں دو اور افراد علی سجاد اور عبدالوہاب نے اسے ایک کمرے میں لے جانے میں مدد کی۔ متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ وحید اور حسن نے اس کے ساتھ کئی بار زیادتی کی تاہم وہ بعد میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی۔

عصمت دری کا کلچر

تھامسن رائٹرز کے سروے میں پاکستان کو دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں روزانہ 10 سے 15 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ہر روز کم از کم 11 عصمت دری کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گزشتہ چھ برسوں کے دوران 22 ہزار سے زائد خواتین کی عصمت دری یا اجتماعی عصمت دری کی گئی جن میں سے صرف 77 ملزمان کو سزا سنائی گئی۔

عصمت دری کے واقعات کی بڑی تعداد پولیس کو رپورٹ نہیں کی جاتی کیونکہ عصمت دری سے بچ جانے والوں سے جڑے افراد سماجی بدنامی اور عصمت دری کرنے والوں کی طرف سے انتقامی کارروائی کے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ معاشرہ اس گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد سے زیادہ زندہ بچ جانے والوں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔

ملک میں عصمت دری کے جرائم میں تیزی سے اضافے کی وجہ اس جرم کی سزاؤں کا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ جرم کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس حوالے سے کوئی خاص ایکشن نہیں لیں گے۔

پاکستان کے قوانین میں عصمت دری کے جرم میں سزائے موت اور 10 سال سے 25 سال تک قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ اجتماعی عصمت دری کی سزا موت ہے۔ بدقسمتی سے، سخت سزا بھی جرائم پیشہ عناصر میں خوف پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

پاکستان میں ایسا کیوں ہورہا ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو عصمت دری کی وبا کا سامنا کیوں ہے، جبکہ ہم اپنے آپ کو فخر سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں۔ اسلام میں زنا کی سختی سے ممانعت ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ جنسی جرائم کے مرتکب افراد کو سزا نہیں دی جاتی اور اگر انصاف ہوتا بھی ہے تو قانونی عمل کی رفتار سست ہے۔ 

ایک اور وجہ مجموعی طور پر معاشرے کی غلط ذہنیت بھی ہو سکتی ہے، جب بھی میڈیا پر جنسی جرائم سے جڑی کوئی خبر نشر کی جاتی ہے تو ہمارا معاشرہ اس حوالے سے طرح طرح کے سوال شروع کردیتا ہے۔

مزید یہ کہ معاشرے سے زیادتی کرنے والے کو سرعام پھانسی دینے کی چیخیں سنائی دیتی ہیں، اگر جرم کے مرتکب شخص کو پھانسی بھی دے دی جائے اس کے باوجود یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے، کیونکہ جب تک معاشرے میں موجودہ بنیادی مسائل کا تدارک نہیں کیا گیا تو ایسے واقعات کے بار بار رونما ہونے کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔

Related Posts