پاکستان کے وزیر مملکت برائے بین الصوبائی رابطہ احسان الرحمان مزاری کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی بیٹنگ اور باؤلنگ کی مہارت سعودی عرب کے ساتھ شیئر کرے گا اور سعودی عرب کی قومی ٹیم کو مضبوط بنانے میں مدد کرے گا۔
سعودی عرب میں 1960 کی دہائی سے کرکٹ میچز کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے، یہاں اس کھیل کو پاکستان اور بھارت سے آنے والے تارکین وطن نے متعارف کرایا، اس کے بعد مقامی کلب بننا شروع ہوئے۔ سعودی عرب 2003 میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا الحاق شدہ رکن بنا اور 2016 میں اسے ایسوسی ایٹ رکنیت کے لیے ترقی دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:
ماؤنٹ ایورسٹ دیکھنے جانیوالے سیاحوں کا ہیلی کاپٹر کریش کرگیا،6 افراد ہلاک
لیکن مملکت میں کھیل کا اصل عروج 2020 میں سعودی عرب کرکٹ فیڈریشن کے قیام کے ساتھ ہی آیا، جس نے قیام کے بعد سے ملک میں کھیل کو فروغ دینے اور مستقبل میں دنیا کی بہترین ٹیموں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے قومی ٹیموں کو تیار کرنے کے لیے کئی پروگرام ترتیب دیے ہیں۔
مارچ میں سعودی قومی کرکٹ ٹیم نے فائنل میں بحرین کو شکست دے کر بنکاک میں ایشین کرکٹ کونسل کا مینز چیلنجر کپ 2023 جیت لیا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے نگران پاکستان کرکٹ بورڈ اور وزیر مملکت نے اسلام آباد میں عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ۔“ سعودی عرب میں کرکٹ بڑے پیمانے پر سامنے آ رہی ہے اور اگر انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم یقینی طور پر ان کی مدد کریں گے، چونکہ یہ ایک برادر ملک ہے، ہم ان کی کوچنگ، باؤلنگ کوچنگ، بیٹنگ کوچنگ، جو بھی چاہیں گے ان کی ضرور مدد کریں گے۔
اس سلسلے میں پاکستانی لیجنڈری فاسٹ باؤلر اور سابق کپتان وسیم اکرم نے بھی فروری میں ریاض کا دورہ کیا تھا اور سعودی عرب کرکٹ فاؤنڈیشن کے چیئرمین شہزادہ سعود بن مشعل آل سعود سے ملاقات کے دوران کرکٹ کے مستقبل پر بات چیت کی اور پاکستان کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
پاکستان میں کرکٹ کی بھرپور تاریخ ہے جسے عالمی سطح پر بھی مانا گیا ہے۔ پاکستان سے تاریخ کے چند بہترین کرکٹرز ابھرے ہیں، جن میں سابق وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہیں، جن کی کپتانی میں 1992 کا ورلڈ کپ جیتا، لیجنڈری فاسٹ باؤلر وسیم اکرم، اور ون ڈے کرکٹ کے عظیم ترین کھلاڑیوں میں سے ایک شاہد آفریدی کے علاوہ بابر اعظم بھی شامل ہیں جو پاکستان کے موجودہ کپتان ہیں اور تمام فارمیٹس میں ٹاپ فائیو رینکنگ میں شامل ہونے والے واحد کرکٹر ہیں۔
بہت سے اعلیٰ افغان کھلاڑیوں کو پاکستانی کوچز نے تربیت دی، اور 1995 میں افغانستان کرکٹ فیڈریشن کے قیام کو بھی پاکستان کی حمایت حاصل تھی۔