کورونا کا ڈیلٹا ویرئینٹ دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ خطرناک کیسے ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کورونا کا ڈیلٹا ویرئینٹ دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ خطرناک کیسے ہے؟
کورونا کا ڈیلٹا ویرئینٹ دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ خطرناک کیسے ہے؟

جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ کورونا کے باعث ہمیں سخت پابندیوں کا سامنا ہے، وہ تاحال اس بات سے بے خبر ہیں کہ ڈیلٹا ویرئینٹ انسانی زندگی کو کس حد تک نقصان پہنچا سکتا ہے جبکہ یہ کورونا کی سب سے تیز اور مہلک قسم قرار دی جاسکتی ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کورونا کی ڈیلٹا قسم کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے جو کافی خطرناک ہے۔ حیرت انگیز طور پر گزشتہ برس کے مقابلے میں ڈیلٹا کی مختلف حالتیں زیادہ ترقی یافتہ ہوچکی ہیں جس پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔

ڈیلٹا ویرئینٹ کیا ہے؟

بنیادی طور پر کورونا وباء کی مختلف اقسام میں سے ایک ڈیلٹا وائرس بھی کوویڈ 19 کی ہی ایک ترقی یافتہ صورت ہے جو 2019ء میں چین میں پہلی بار دریافت ہونے والے کورونا کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

متعدی ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ وائرس دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ ماہرینِ صحت نے اندازہ لگایا ہے کہ ہر ایک فرد جو ڈیلٹا سے متاثر ہوا ہو، وہ اسے 3 یا 4 دیگر افراد تک ضرور پھیلا دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے ایسا مسئلہ نہیں تھا۔

عام طور پر کورونا ایک فرد سے ایک یا دو دیگر افراد میں پھیل جاتا ہے لیکن ڈیلٹا کی رفتار دو گنا زیادہ ہے۔ جولائی کے اوائل تک ڈیلٹا ویرئینٹ امریکا، برطانیہ، جرمنی اور دیگر ممالک میں کورونا کی ایک غالب قسم بن کر سامنے آیا۔

خاص طور پر برطانیہ میں ڈیلٹا ویرئینٹ کے نئے کیسز عام کورونا کے مقابلے میں 97 فیصد سے زائد ہیں اور امریکا میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ اگلا سوال یہ ہوگا کہ یہ بنی نوع انسان کو کیسے کیسے نقصانات پہنچا رہا ہے۔ 

عام علامات 

اگرچہ عالمی وباء کا ڈیلٹا ویرئینٹ بھی کورونا کی طرح ہی اثر کرتا ہے جس میں مستقل کھانسی، سردرد، بخار اور گلے کی سوزش کی علامات شامل ہیں تاہم بعض مریضوں نے علامات میں کچھ تبدیلیاں بیان کی ہیں۔

کچھ مریضوں کے مطابق ڈیلٹا ویرئینٹ کے دوران سردرد، گلے کی سوجن، ناک کا بہنا اور بخار کی علامات زیادہ واضح ہیں جس سے یہ عام کورونا کی نسبت زیادہ خطرناک ہوچکا ہے جس کے جلد تدارک کی ضرورت ہے۔ 

کورونا سے زیادہ خطرناک 

عام کورونا کی بہ نسبت ڈیلٹا ویرئینٹ میں یہ خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ یہ آسانی اور تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے اور اس کا اثر عوام الناس پر دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جس سے ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ جاتی ہے۔

تاحال اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ڈیلٹا کی مختلف حالتیں انسان کو زیادہ بیمار بنادیتی ہیں، تاہم یہ عام کورونا کے مقابلے میں دو گنا زیادہ متعدی ہے کیونکہ لوگ وائرس کے مزید ذرات ناک اور گلے میں لے جاتے ہیں جس سے پھیلاؤ آسان ہوجاتا ہے۔

کیا ویکسین لگانے سے ڈیلٹا سے نجات مل جائے گی؟

حالیہ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ڈیلٹا کی مختلف حالتیں ہمارے جسم اور سانس کی نالی میں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔ عام طور پر ویکسین لگانے والے افراد پر یا تو ڈیلٹا وائرس اثر نہیں کرتا یا پھر ان میں معمولی علامات پائی جاتی ہیں۔

پھر بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ویکسین لگوالینے کے بعد ڈیلٹا سے مکمل طور پر نجات مل سکتی ہے۔ کسی قدر فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ امکانات یہ ہیں کہ ویکسینیشن کے باوجود ڈیلٹا کا پھیلاؤ جاری رہتا ہے۔

کورونا کی دیگر اقسام 

ڈیلٹا کی مختلف حالتیں وائرس کا ہراول دستہ ثابت ہورہی ہیں تاہم جنوبی امریکا سے کورونا کی لامبڈا قسم بھی سامنے آئی ہے۔ ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ اگر لوگ معمول کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آبادی کے ایک بڑے حصے کو ویکسین لگوانا ہوگی۔

ماہرین کے مطابق جب تک دنیا بھر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ویکسین سے محروم رہے گا، کورونا کی نئی اقسام بنتی رہیں گی اور عوامی مسائل، لاک ڈاؤنز اور ایس او پیز میں اضافہ جاری رہے گا جس کا سامنا کرنے کیلئے متعدد ممالک تیار نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:  کیا پاکستان ویسٹ انڈیز کے خلاف بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرپائے گا؟

Related Posts