علمائے کرام کے پروٹوکول پر مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سوشل میڈیا پر بات کا بتنگڑ بنانا اور رائی سے پہاڑ کھڑا کرنا معمول کی بات ہے، ایک موضوع پر خوب دھول اڑائی جائے گی اور جوں ہی کسی دوسری طرف سے کوئی شور اٹھے گا تو سب اس طرف متوجہ ہو جائیں گے۔۔۔نہ چھوٹے بڑے کی تمیز۔۔۔۔نہ سنجیدہ غیر سنجیدہ کی تفریق۔۔۔نہ تحقیق و دیانت کا اہتمام۔۔۔۔نہ پس منظر اور پیش منظر سامنے رکھنے کا تردد۔۔۔بس جو سنا مان لیا۔۔۔جو ملا شیئر کر دیا۔۔جو پڑھا اس پر یقین کر لیا۔

۔سوشل میڈیا کے اسی پلیٹ فارم اور ایسے ہی ماحول میں اس وقت کی موضوعات زیر بحث ہیں جن میں صدر وفاق، ممتاز عالم دین مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب  کا “پروٹوکول” بھی شامل ہے۔

حضرت مفتی تقی عثمانی سے عقیدت اور غائبانہ محبت تو مدت سے تھی اور ان کی کتب سے استفادہ کا سلسلہ عرصے سے جاری تھا لیکن جب سے انہیں قریب سے دیکھا اور جب جب دیکھا حیرت ہوئی اور بہت ہوئی ۔۔۔اپنے اکابر کے بارے میں جو کچھ کتابوں میں پڑھا تھا حضرت کو اس کا پیکر مجسم پایا۔

بعض لوگ تکلف سے بزرگ اور متقی بنتے ہیں لیکن ہمارے حضرت کے مزاج اور طبیعت میں تقوی و بزرگی اور اخلاص و للہیت ہے۔

ہم نے تقوی وپرہیزگاری،احتیاط، وخودداری،عاجزی و انکساری، بے تکلفی، اصاغر نوازی، خیرخواہی، حوصلہ افزائی، حکمت و بصیرت، علم و عمل، عالی ظرفی سے ملتے جلتے جتنے الفاظ پڑھےاور سنے ہیں حضرت کی شخصیت کو ان سب صفات اور سارے رنگوں کی دھنک اور چلتا پھرتا نمونہ پایا ہے۔ اللہ کریم ان کا سایہ عافیت کے ساتھ ہمارے سروں پر قائم رکھیں۔
حالیہ پروٹوکول والا قضیہ کسی ندیدے پن کے مرض میں مبتلا شخص یا احساس کمتری کے مارے کسی ذہن کے لیے ممکن ہے اچنبھے کی بات ہو لیکن ہماری دانست میں تو حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب جیسی شخصیت ان چیزوں سے بہت اوپر کی ہستی ہیں-حضرت دامت برکاتہم العالیہ کا حالیہ سفر وفاقی وزیر مذہبی امور سینیٹر طلحہ محمود صاحب جیسے ایک سعادت مند شخص اور حضرت کے خدام و متعلقین کی سعادت مندی،قدر دانی،خدمت،مہمان نوازی،راحت رسانی کی ایک معمولی سی جھلک ہے۔

حضرت جیسے علمائے کرام کا اس سے زیادہ اکرام ہونا چاہیے۔ اس سے بہت زیادہ پروٹوکول ہونا چاہیے۔۔۔اگر وادی سوات والوں کو پیشگی اطلاع ہوتی یا یہ سب کسی پیشگی منصوبہ بندی کے تحت ہوتا تو پھر دیکھتے اہل سوات ہی کیسا استقبال کرتے اور کیسا پروٹوکول دیتے ہیں۔

حضرت کے اس سفر سے یاد آیا استاذ المحدثین سابق صدر وفاق حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب،مفتی اعظم پاکستان حضرت اقدس مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اور ناظم اعلی وفاق المدارس حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب سمیت دیگر اکابر وفاق جب سوات تشریف لے گئے تھے تو مجھے بھی اس عظیم قافلہ میں شمولیت کا شرف نصیب ہوا تھا۔

اہل سوات نے کیسے اپنے اکابر کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے تھے..رہ رہ کر وہ مناظر یاد آتے ہیں تو سرشاری اور خوشی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔۔ایک نجی سفر اور معمولی پروٹوکول پر جو دھول اڑانے کی کوشش کی گئ جی چاہتا ہے حضرت دامت برکاتہم العالیہ کا ایک اور سفر ہو اور صحیح پروٹوکول کے ساتھ ہوتاکہ جلنے والوں کو خبر ہوکہ “پروٹوکول” ہوتا کیا ہے؟
حالیہ سفر اور پروٹوکول تو بس اتنا تھا کہ سینٹر طلحہ محمود صاحب جنہیں اللہ کریم نے خوب مالی فروانی بھی دی اور بادشاہوں والا دل بھی دیا….دین اور اہل علم کی قدردانی کا سلیقہ بھی دیا اور خرچ کرنے کا ڈھنگ بھی سکھایا…یہ ان کی میزبانی اور محبت تھی اور بس۔۔۔یہاں کتنے مال والے ہیں کون نہیں جانتا کہ وہ مال کماتے کیسے ہیں اور لگاتے کہاں کہاں ہیں؟…طلحہ محمود صاحب اور ان کے خاندان پر الله پاک کا کرم ہے کہ اللہ نے دیا بھی خوب ہے اور اپنی مخلوق اور اپنے محبوب بندوں پر لگانے کی بھی توفیق دی۔۔۔طلحہ محمود صاحب چونکہ ہمارے پڑوسی ہیں۔۔۔حضرت دامت برکاتہم العالیہ کی برکت اور برادر گرامی مولانا ابراہیم سکرگاہی صاحب کی مہربانی سے طلحہ محمود صاحب کی فیاضی،میزبانی اور خدمت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ہمیشہ رشک آیا۔۔۔اللہ پاک مزید برکت اور فراوانی عطا فرمائیں۔۔۔آمین
کون نہیں جانتا کہ طلحہ محمود صاحب کسی قسم کی سرکاری مراعات حتی کہ وزارتوں کی تنخواہ اور سفری اخراجات اور الاونسز وغیرہ نہیں لیتے۔۔۔حالیہ سفرمیں ساری گاڑیاں طلحہ صاحب کی ذاتی تھیں۔۔۔۔سب گاڑیاں صرف پروٹوکول کے لیے نہیں بلکہ قافلے میں شامل مختلف افراد کی ضرورت،راحت اور خدمت کے لیے تھیں۔۔۔کسی قسم کے سرکاری یا اجتماعی وسائل کا بالکل استعمال نہیں کیا گیا جس پر کوئی انگلی اٹھا سکے۔۔ صرف اسکواڈ کی ایک یا دو گاڑیاں مقامی پولیس یا فورسز کی تھیں جو وفاقی وزیر یا اتنی ہائی پروفائل شخصیت کی سوات جیسے حساس علاقے میں آمد کی صورت میں معمول کی بات اور پیشہ ورانہ ذمہ داری کا حصہ ہوتا ہے-اس سفر میں پہلی دفعہ نہیں بلکہ عرصے سے طلحہ محمود صاحب لڑ جھگڑ کریامنت سماجت کرکے بالآخر صرف حضرت ہی نہیں دیگر بہت سے علماء کرام کی میزبانی کی سعادت جیت لیتے ہیں اور ساری مصروفیات ایک طرف رکھ کر خودخدمت کرتے ہیں۔۔۔۔ خود ڈرائیونگ کرتے ہیں۔۔۔۔خود وہیل چیئر چلاتے ہیں۔۔۔۔خود کھانا پیش کرتے ہیں۔۔۔۔ صرف حضرت اور علماء کرام ہی نہیں اللہ کا یہ مخلص اور نیک بندہ جس طرح اس حج میں فقیرانہ اور درویشانہ انداز سے حجاج کرام کی خدمت میں مصروف عمل رہااس کی تفصیل جان کر بھی حیرت ہوئی سچ یہ ہے کہ یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔۔۔اس لیے براہ مہربانی کسی بھی بات کا بتنگڑ بنانے سے پہلے اس کی حقیقت ضرور جان لیا کریں اور اس کے پس منظر سے ضرور آگاہی حاصل کرلیا کریں-
یادش بخیر وفاق المدارس پنجاب کے ناظم مولانا قاضی عبدالرشید صاحب صرف پنجاب کے ناظم ہی نہیں بلکہ ڈھیر سارے خیر کے کاموں اور ہر تحریک،۔۔۔۔دین کےہر کام اور ہر شعبے میں پیش پیش رہتے ہیں۔۔۔دینی تقاضوں اور دینی معاملات میں اتنا سفر کرتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔۔۔گزشتہ دنوں اللہ کے ایک خوش نصیب بندے نے انہیں ایک قیمتی اور آرام دہ گاڑی Kia Sportage دینی اسفار کے لیے ہدیہ کہ تو ایک سڑیل مزاج اور منفی سوچ والے شخص نے گاڑی دیکھ کر اپنے مزاج کے مطابق تبصرہ کر دیا تو مجلس میں موجود ایک شخص نے بے ساختہ کہا قل موتوا بغیضکم۔

آج حضرت کے پروٹوکول پر پیچ و تاب کھانے والوں کو دیکھ کر بھی اس شخص کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ یاد آرہے ہیں “قل موتوا بغیضکم”۔۔۔۔۔۔اللہ پاک ہمارے اکابر کی عزتوں میں اور اضافہ فرمائیں اور طلحہ محمود صاحب جیسے خوش نصیب لوگوں کو مزید خدمت کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

Related Posts