بلوچستان کے ضلع بولان میں پسند کی شادی کرنے والے نوجوان جوڑے کو جرگے کے فیصلے پر بے رحمی سے قتل کرنے کے سنگین واقعہ کا مرکزی کردار ساتکزئی قبیلے کا بااثر سردار شیرباز خان ساتکزئی پولیس کی زیر حراست ہے۔
اطلاعات کے مطابق یہ قتل ایک قبائلی جرگے کے فیصلے کے تحت عمل میں آیا جس میں سردار نے قتل کی منظوری دی اور قبیلے کے افراد نے جوڑے کو کھلے عام گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
پولیس نے نہ صرف سردار شیرباز ساتکزئی کو بلکہ ان کے چار بھائیوں، دو محافظوں اور دیگر ساتھیوں کو بھی گرفتار کرلیا۔ پولیس نے اس کارروائی کو تفتیشی ٹیم کی جانب سے حاصل شدہ شواہد کی روشنی میں انجام دیا، جب ایک خصوصی چھاپے کے دوران ساتکزئی ہاؤس پر ہدفی کارروائی کی گئی۔
پولیس ذرائع کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں مرکزی ملزم بشیر احمد بھی شامل ہے جبکہ تحقیقات کا دائرہ مزید افراد تک وسیع کر دیا گیا ہے اور مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔ تمام گرفتار شدگان کو مقامی عدالت میں پیش کیے جانے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔
ادھر اس انسانی المیے پر جب ریاست نے قانون کی عملداری دکھاتے ہوئے سردار کو گرفتار کیا، تو بلوچستان کے متعدد قبائلی رہنماؤں اور سرداروں نے نہ صرف سردار کی حمایت کا اعلان کیا بلکہ حکومت کو کھلی دھمکیاں دینا بھی شروع کر دیں۔
سردار میر حبیب اللہ خان شاہوانی نے سردار شیرباز کی گرفتاری کو بلوچ ثقافت کی توہین قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر سردار کو رہا نہ کیا گیا تو ہم بولان ہائی وے کو بند کر دیں گے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ سردار شیرباز صرف ساتکزئی قبیلے کے نہیں، بلکہ پوری بلوچ قوم کی عزت کا نشان ہیں۔
اسی طرح سردار جاوید عزیز لہڑی نے بھی واقعے کے جواز میں قبائلی روایات کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ ڈیگاری واقعہ کی آڑ میں سردار کو گرفتار کرنا ناقابل قبول ہے۔ ان کے مطابق جلد تمام بلوچ سرداروں کا اجلاس بلا کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
سردار زادہ یوسف علی خان قلندرانی نے اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے سردار شیرباز کی گرفتاری کو قبائلی اقدار کی توہین، جبر اور اشتعال انگیز اقدام قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہوش کے ناخن لے، سردار کی گرفتاری فساد کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
یہ تمام بیانات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بلوچستان کے متعدد علاقوں میں اب بھی سرداری نظام قانون، عدلیہ، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر غالب ہے۔ جہاں ریاست خاموش ہو، وہاں بندوق بردار سردار جرگے کے نام پر موت کے فیصلے صادر کرتے ہیں۔ یہ صرف دو نوجوانوں کا قتل نہیں بلکہ ایک فرسودہ نظام کے ہاتھوں انسانیت کی کھلی توہین ہے۔
اب یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے کہ وہ صرف گرفتاریوں تک محدود نہ رہیں بلکہ اس ظلم کے ذمہ دار تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر نشان عبرت بنائیں۔ سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ ظلم کے خلاف اجتماعی آواز ہی سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔