آرکٹرس وائرس کیا ہے؟ کیا پاکستان کے شہریوں کو اس سے پریشان ہونا چاہئے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جنیوا: عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کورونا کے اومی کرون ویرئینٹ کے سب ویرئینٹ ایکس بی بی 1 اعشاریہ 16 پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے آرکٹرس وائرس کا نام دیا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق آرکٹرس وائرس سنگاپور، آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا سمیت دنیا بھر کے 22 ممالک میں پایا گیا ہے۔ شمالی آسمانی نصف کرے کے روشن ترین ستارے کا نام بھی آرکٹرس ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ملک میں 24گھنٹوں کے دوران کورونا کے 22نئے کیسز رپورٹ

وائرس میں دو اہم جینیاتی تبدیلیاں نظر آتی ہیں جن میں سے ایک اس کے اسپائیک پروٹین میں کی گئی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ وائرس خطرناک ہوسکتا ہے جس کی ہم نگرانی کر رہے ہیں کہ یہ کہاں کہاں پھیل رہا ہے۔

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ آرکٹرس وائرس کورونا کی دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے تاہم بہت سے خطوں میں اس وائرس کی آمد سے عوام شدید بیماری کا شکار نہیں ہورہے۔ ڈبلیو ایچ او کا بھی کہنا ہے کہ وائرس سے انسانیت کو کم خطرات ہیں۔

تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے ویرئینٹ سے انسانیت کو ضرور خطرات لاحق ہیں کیونکہ یہ ان لوگوں کو متاثر کر رہا ہے جو پہلے ہی کورونا سے متاثر تھے یا پھر ان نابالغ اور بالغ افراد کو بھی جنہوں نے ویکسین لگوائی ہوئی تھی۔

بھارت میں ایک ہی روز میں کورونا کے نئے ویرئینٹ سے 10 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ فعال کیسز کی تعداد بڑھ کر 57 ہزار 542 ہوچکی ہے۔ اس نئی قسم کے باعث عوام میں آشوبِ چشم، گلابی آنکھ اور خاص طور پر 12سال سے کم عمر بچوں کے متاثر ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک نئے ویرئینٹ کے متعلق اپنی اپنی معلومات سامنے لائیں اور یہ دیکھنے کیلئے ٹیسٹ بھی ہونے چاہئیں کہ مختلف ممالک کی آبادی میں اس وائرس سے نمٹنے کیلئے کتنی قوتِ مدافعت ہے۔

Related Posts