اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو خون میں نہلا دیا ہے۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک 55 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں ہزاروں معصوم بچے شامل ہیں۔
غزہ کی تباہی کا یہ سلسلہ نہ صرف ایک انسانی المیہ ہے بلکہ تاریخ کے بدترین نسل کشی کے مظاہر میں سے ایک ہے۔
فلسطینی سرزمین سے جڑے ہیں، موت قبول ہے مگر ہجرت نہیں
ہر روز سیکڑوں فلسطینی بمباری، خوراک و دوا کی قلت، اور بجلی و پانی کی بندش کے باوجود اپنی شناخت، اپنی سرزمین اور اپنے مستقبل سے وابستہ رہنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
بچوں، عورتوں اور بوڑھوں نے جبری انخلاء کو مسترد کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کا تعلق کسی “پناہ گزین کیمپ” سے نہیں بلکہ اس سرزمین سے ہے جہاں ان کے آبا و اجداد نے صدیوں سے زندگی گزاری۔
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد فلسطینی غزہ میں رہنے کو “شہادت کی طرف قدم” قرار دیتے ہیں مگر ہجرت نہیں۔
اسرائیل میں صرف 5 دن کی جنگ، خوف میں مبتلا قوم
دوسری جانب ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی میں صرف پانچ دن کی محدود جنگ میں اسرائیلی معاشرہ خوف میں ڈوب گیا۔ ایران کی جانب سے اپریل 2025 میں ہونے والے جوابی حملے میں 300 سے زائد ڈرون اور میزائل اسرائیل کی جانب روانہ کیے گئے۔
اسرائیلی ڈیفنس سسٹم اگرچہ بیشتر حملے روکنے میں کامیاب رہا تاہم ایرانی عسکری طاقت کے مظاہرے نے اسرائیلی حکومت اور عوام کے حواس باختہ کر دیے۔
عوامی فرار کی کوشش، حکومت کی ہنگامی پابندی
اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی حملوں کے بعد ہزاروں اسرائیلی شہری ہوائی اڈوں پر جمع ہونے لگے تاکہ بیرون ملک فرار حاصل کر سکیں۔
بین گوریون ایئرپورٹ پر ایک دن میں پروازوں کی طلب میں 400 فیصد اضافہ ہوا جبکہ تل ابیب اور حیفہ میں عوام نے سفارت خانوں سے ویزا اپائنٹمنٹس لینے کے لیے قطاریں لگا دیں۔
اس افراتفری کے پیشِ نظر اسرائیلی حکومت نے شہریوں کے ملک چھوڑنے پر عارضی پابندی لگا دی تاکہ عالمی سطح پر کمزوری ظاہر نہ ہو۔
بنکرز میں چھپی قوم، اپنے گھر کی حفاظت سے قاصر
ایران کے حملوں کے بعد اسرائیل کے تمام بڑے شہروں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی، اور شہریوں کو زیر زمین بنکروں، میٹرو اسٹیشنز اور تہہ خانوں میں پناہ لینے کی ہدایت دی گئی۔
ایک معروف اسرائیلی صحافی نے اپنے کالم میں لکھا:”ہم وہ قوم ہیں جو ایٹمی ہتھیار رکھتی ہے مگر اپنے بچوں کو تحفظ نہیں دے سکتی۔”
پختہ حوصلہ اور مصنوعی دفاع
اس صورتحال میں فلسطینی اور اسرائیلی ردعمل کا تقابل ایک واضح سچائی سامنے لاتا ہے۔ فلسطینی بموں، گولوں اور مہلک فضائی حملوں کے سامنے سینہ سپر ہیں جبکہ اسرائیلی شہری صرف “خطرے کے امکان” پر زمین چھوڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ غزہ کے لوگوں کے پاس نہ آئرن ڈوم ہے، نہ بنکرز، نہ ہنگامی الرٹ سسٹم۔ ان کے پاس صرف ایمان، جذبہ حریت اور شہادت کا یقین ہے۔
عالمی ضمیر کی خاموشی اور امت مسلمہ کی بے حسی
فلسطینی عوام کا یہ حوصلہ اور قربانی دنیا کے ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہے، خاص طور پر ان مسلم ممالک کے لیے جو اسرائیل سے تجارتی اور سفارتی تعلقات بڑھانے میں مصروف ہیں۔
کیا یہ وقت نہیں کہ امت مسلمہ فلسطین کی آزادی کو اپنی ترجیح بنائے؟ کیا ہمیں فلسطینیوں کے لہو کا قرض ادا نہیں کرنا چاہیے؟
اصل طاقت اسلحے میں نہیں، ایمان میں ہے
فلسطینیوں نے تاریخ کو یہ سبق سکھا دیا ہے کہ اصل طاقت آئرن ڈوم یا ایف 35 طیاروں میں نہیں، بلکہ حق پر ڈٹے رہنے اور قربانی دینے کے جذبے میں ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی معاشرہ، جو خود کو “ناقابل شکست” سمجھتا تھا، اب خود اپنے سائے سے ڈر رہا ہے۔ وقت بتا رہا ہے کہ ظلم زیادہ دیر قائم نہیں رہتا اور مظلوم اگر بیدار ہو جائے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔