مغرب کا گدھے کو باپ بنا لینا

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہمارے دیسی لبرلز مغرب کے تین سیاسی شوشوں کو دل جان سے عزیز رکھتے ہیں۔ لبرل ڈیموکریسی، انسانی حقوق اور آزادی اظہار۔ ہمیں انہیں عزیز رکھنے پر اعتراض نہیں۔

اعتراض بس اس بات پر ہے کہ یہ اس معاملے میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اتنا تو خود امریکی بھی ان تین چیزوں کو عزیز نہیں رکھتے جتنا ہمارے اہلیانِ لنڈا بازار نے سمجھ رکھا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردیں جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے ہم بھی قائل ہیں۔ مگر لبرل جمہوریت اور اس کے تقاضوں کے تحت ترتیب دیے گئے انسانی حقوق اور آزادی اظہار کو قبول نہیں کرتے۔

لبرل ڈیموکریسی سے متعلق امریکی اخلاق کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ امریکی ایوان کیپٹل ہل پر 6 جنوری 2021ء کو جو حملہ ہوا اسے خود امریکی حکومت نے “جمہوریت پر حملہ” قرار دے رکھا ہے۔ گویا اس موقف کے مطابق امریکی شہریوں نے ہی ہزاروں کی تعداد میں لبرل ڈیموکریسی پر حملہ کیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب یہی کام کسی روس نواز ملک میں ہو تو امریکہ اسے “حقیقی آزادی” کا نام دیتا ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والوں میں سے اکثریت کی فوٹیج اور تصاویر موجود ہیں۔ مگر اس کے باوجود پچھلے دو سال میں سزا صرف دو افراد کو ہی ہوسکی ہے۔

یہی حال انسانی حقوق کے حوالے سے بھی ہے۔ اس کا اندازہ آپ دو عالمی سطح کے واقعات سے لگا سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ 2020ء کے صدارتی انتخابات میں موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے انتخابی وعدوں میں سے ایک وعدہ یہ تھا کہ اقتدار میں آکر جمال خشوگی کو انصاف فراہم کرنے کے لئے محمد بن سلمان کو کٹہرے میں لاؤں گا۔ مگر جب محمد بن سلمان نے بائیڈن کا بازو مروڑ ڈالا تو پہلے بائیڈن نے یہ اعلان کیا کہ میں تو اپنے وعدے پر قائم ہوں مگر محمد بن سلمان کو امریکی قانون کے تحت استثنی حاصل ہے۔ لھذا وہ جب تک حکمران ہیں تب تک ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوسکتا۔ بات یہیں نہیں رکی بلکہ آج محمد بن سلمان کے خلاف قائم کیس ہی خارج کردیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا بائیڈن کو الیکشن جیتنے کے بعد پتہ چلا کہ محمد بن سلمان کو تو استثنی حاصل ہے ؟ نہیں ! ایسا بالکل نہیں۔ دنیا کی سب سے پڑھی لکھی قوم کے تو بچے کو بھی پتہ ہوگا کہ محمد بن سلمان کو استثنی حاصل ہے۔ مگر جب جو بائیڈن اسی پڑھی لکھی قوم سے یہ وعدہ کر رہے تھے کہ وہ محمد بن سلمان کے خلاف ایکشن لیں گے تو تب وہ باراک اوباما دور والی امریکی اسٹیبلیشمنٹ کی اس پالیسی پر چلنے کا عزم رکھتے تھے جس کے تحت عرب ممالک کو شیعہ ممالک کے زیر نگیں لانا تھا۔ اور جس کے لئے عرب سپرنگ نامی منصوبہ رو بہ عمل ہوا تھا۔ 2020ء میں حالات اس کی فیور میں تھے سو جو بائیڈن نے استثنی کے کے باوجود اپنی پڑھی لکھی قوم سے وعدہ کرلیا کہ محمد بن سلمان کو نہیں بخشا جائے گا۔ لیکن پچھلے دس ماہ میں دنیا کا سیاسی نقشہ امریکہ اور یورپ کے مفادات کے لحاظ سے بری طرح تبدیل ہوگیا ہے۔ سو اب جو بائیڈن نے بھی ایک بڑا یوٹرن لے لیا ہے۔

آج کی تاریخ میں وہ یورپ گیس ہی نہیں بلکہ بجلی کے بحران سے بھی دوچار ہونے کو ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے عالمی سیاست میں امریکہ کے گینگ کا کردار ادا کرتا آیا ہے۔ یورپ دو ذرائع سے بجلی پیدا کرتا ہے۔ پہلے نمبر پر ایٹمی بجلی گھر ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر ہائیڈروپاور کا نظام ہے۔ چونکہ موسم سرما ہے سو پانی والی بجلی تو دستیاب نہیں۔ جبکہ ایٹمی بجلی گھروں کی صورتحال یہ ہے کہ ان کے لئے درکار ایندھن کا 45 فیصد روس اور اس کے اتحادی قازقستان سے آتا ہے۔ یورپ میں ان دنوں ہر شخص سانس روکے اس انتظار میں ہے کہ روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن کسی بھی وقت ایٹمی ایندھن کی سپلائی روکنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ ابھی ایٹمی ایندھن کی سپلائی بند بھی نہیں ہوئی اور دو ممالک بجلی کے بحران سے دوچار ہوچکے۔ فرانس کے 59 میں سے اٹھارہ ایٹمی پاور پلانٹس مرمت کے لئے بند پڑے ہیں۔ گویا بجلی کی سب سے زیادہ ضرورت والے موسم میں ان کے 18 پلانٹس ناقابل استعمال ہیں۔ اور جو قابل استعمال ہیں وہاں ملازمین کی جانب سے اجرتوں میں اضافے کے لئے ہڑتال کا چیلنج درپیش ہے۔

ان حالات میں فرانس نے اپنے شہریوں کو متنبہ کردیا ہے کہ تمام شہری رضا کارانہ طور پر ہی بجلی کا استعمال دس فیصد کم کردیں ورنہ ہمیں دو شفٹوں میں لوڈ شیڈنگ کرنی پڑے گی۔ اس لوڈ شیڈنگ کا ہی اگلا اثر یہ ہوگا کہ وزیر مواصلات نے پیشگی اعلان کردیا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے اوقات میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی بند ہوں گی۔ یہاں تک کہ ایمرجنسی خدمات والے نمبرز پر بھی کال نہ کی جاسکے گی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ دوران لوڈ شیڈنگ نہ تو کسی واردات کی روک تھام کے لئے پولیس بلائی جاسکے گی، نہ طبی ایمرجنسی کی صورت ایمبولینس طلب کی سکے گی اور نہ ہی آگ لگنے پر فائربریگیڈ سے رابطہ ممکن ہوگا۔

اب اگر آپ غور کیجئے تو ہم پاکستانی شاید دنیا کی سب سے لوڈ شیڈنگ زدہ قوم ہیں۔ لیکن ہمارا مواصلات کا نظام لوڈ شیڈنگ کے دوران بھی کام کرتا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ فرانس میں لوڈ شیڈنگ کے دوران ٹیلی مواصلات کا نظام بھی بند ہوگا ؟ ہمیں تو اس کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے اور وہ وہی ہے جو فرانسیسی مفکر ژاں ژاک روسو نے اٹھارویں صدی میں اپنے ایوارڈ وننگ مقالے میں لکھی تھی کہ “علم انسان کو فائدہ کم نقصان زیادہ پہنچاتا ہے” ہم پاکستانی چونکہ علمی ترقی میں پیچھے ہیں تو ہمارا ٹیلی مواصلات کا دقیانوسی نظام لوڈ شیڈنگ کے دوران بھی کام کرتا ہے۔ جبکہ فرانس کا نظام چونکہ اعلی درجے کی علمی ترقی کا نمونہ ہے سو بجلی کے مرحوم ہوتے ہی اس کا بھی سوئم ہوجاتا ہے۔

فرانس میں بجلی کے بحران کا پہلا اثر سوئٹزرلینڈ پر پڑا ہے۔ یہ ملک ہر سال موسم سرما میں فرانس اور جرمنی سے بجلی خریدتا آیا ہے۔ کیونکہ اس کے دریاؤں سے بجلی کی پیداوار بند ہوجاتی ہے۔ اس سال فرانس اور جرمنی دونوں نے اسے بجلی فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ چنانچہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے سو ئٹزرلینڈ نے اپنے شہریوں کو بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے استعمال سے روک دیا ہے۔ پہلے مرحلے میں شہریوں کو یہی ہدایت کی گئی ہے کہ اشد ضرورت کے سوا یہ گاڑیاں اس موسم سرما کے دوران استعمال نہ کی جائیں۔ اور ساتھ ہی وارننگ بھی دیدی گئی ہے کہ اگر صورتحال بے قابو ہوئی تو ان گاڑیوں کے استعمال پر مکمل پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ کیا بجلی کا یہ بحران صرف ان دو ممالک تک رہنے کا امکان ہے ؟ نہیں، برطانیہ نے بھی اپنے شہریوں کو لوڈ شیڈنگ کے لئے تیار رہنے کا کہدیا ہے۔ برٹش حکومت نے تو مائیکرویواون اور بجلی کا زیادہ استعمال کرنے والے کچھ اور گھریلو آلات کا استعمال ترک کرنے والے شہریوں کے لئے انعام کا اعلان بھی کیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ مغربی اقوام ہماری طرح مائیکرو ویو اون میں صرف برگر گرم نہیں کرتیں بلکہ ان کا تو بیشتر کھانا ہی ان میں بنتا ہے۔ سو ان حالات میں ہمیں تو یہی فکر کھائے جا رہی ہے کہ برٹش گوریوں کو چولہے پر پکنے والی ڈشیں اب آتی بھی ہیں یا نہیں ؟

یہی وہ حالات ہیں جن میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حوالے اپنا موقف بدلنے پر مجبور ہوئے۔ اب ان اقوام کا موقف یہ ہے کہ بھاڑ میں جائیں انسانی حقوق، محمد بن سلمان ساڈا پائی اے۔ یہ اقوام انسانی حقوق والے شوشے سے صرف محمد بن سلمان کے معاملے میں ہی دستبردار نہیں ہوئیں بلکہ ایک اور بڑا یوٹرن لیتے ہوئے وینزویلا کے صدر نکولس مدورو کو تو گویا ابوجی کا بھی درجہ دیدیا ہے۔ وہی نکولس مدورو جسے یہ سالوں سے ڈکٹیٹر ہی قرار دیتے نہیں آئے بلکہ اس پر ہونے والے کئی قاتلانہ حملوں کے پیچھے بھی انہی کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ اور اس کی حکومت گرانے کے لئے وہ کھیل رچایا گیا جس سے وینزویلا کی معیشت 42 فیصد گر گئی۔ اب اسی نکولس مدورو کو جپھی ڈلا کر اس سے تیل خریدا جا رہا ہے۔ اور اس باب میں پہل خود امریکہ نے کی ہے۔ مدورو کی یہ خوشامدصرف اس لئے شروع ہوگئی ہے تاکہ اوپیک پلس کی جانب سے تیل کے ہتھیار کے استعمال کا اثر کم کیا جاسکے۔ ظاہر ہے نکولس مدورو انہیں مفت کا لنچ نہیں دے گا۔ وہ ان سے وہ سب منوائے گا جو وہ چاہے گا۔ اور یہ چپ چاپ مانتے چلے جائیں گے۔ یوں امریکہ اور اس کے یہ اتحادی اخلاقی طور پر ساری دنیا کے سامنے بے لباس ہوگئے ہیں۔ اور دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ جمہوریت، انسانی حقو اور آزادی اظہار مغرب کے صرف سیاسی ہتھیار ہیں۔ اگر ان کے دن اچھے ہوں تو یہ کسی کے بھی خلاف یہ ہتھیار اٹھا کر اسے انسانیت کا دشمن قرار دیدیتے ہیں۔ اور حالات ان کے لئے ناموافق ہوں تو یہ اسی لمحے لبرل ڈیموکریسی، انسانی حقوق اور آزادی آطہار جیسے اپنے بنیادی مطالبات سے دستبردار ہو کر گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔

Related Posts