آغا خان کی بصیر ت کے ثمرات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

محترم آغا خان کی دور اندیشی اور بصیرت نے جو دئیے کئی دہائیوں قبل جلائے، آج ان کی روشنیوں کی کرنیں دنیا کے اُن تمام  شہروں اور بستیوں میں بکھر رہی ہیں جہاں ان کی نورانی صفت کے اثرات سے قبل  انسانیت کربناک حالات کا سامنا کرنے پر مجبور تھی۔آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک  کی بنیاد 1967ء میں   رکھی گئی جو پنپ کر ایک قد آور اور سایہ دار درخت کی شکل اختیار کر گیا۔

قدیم ترین ادارہ آغا خان فاؤنڈیشن کی کامیابی و کامرانی کے بعد جناب  آغا خان مزید اداروں کی داغ بیل ڈال کر انہیں ایک چھتری تلے لے آئے جو دُنیا بھر میں  آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے اور اس نیٹ ورک  کے سائے تلے 10 ایسے ادارے قائم کر دئیے گئے جن کی مثالیں  ترقی یافتہ ممالک میں بھی دی جاتی ہیں۔ انہی اداروں میں سے ایک مایہ ناز  ادارہ   جو آغا خان یونیورسٹی کے نام سے موسوم ہے  ، گزشتہ کئی برسوں سے علم کی روشنی پھیلانے میں ا پنا فعال کردار ادا کررہا ہے۔

آغا خان یونیورسٹی و ہسپتال  پاکستان  کا وہ مشہورومعروف اور مستند ادارہ ہے جس نے علم کے پیاسے بے شمار طلبہ و طالبات کی تشنگی دور کی اور انہیں طبیب ِ وقت بنا کر  ان میں ملک و قوم کی مسیحائی  کا ایسا جوش و جذبہ   پیدا  کیا جس کے تحت  ملک کے دور دراز علاقوں سے آنے والے بے شمار مریض  زندگی سے ناامید ہونے سے قبل اس ہسپتال کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور یہ ادارہ اپنی  بانہیں کھول کر ایسے دکھی انسانوں کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔

آغا خان یونیورسٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پاکستان میں  مادرِ علمی کے 13 ہزار ملازمین  میں خواتین اور مرد کم و بیش برابرہیں جبکہ  آغا خان یونیورسٹی  سے ڈاکٹرز اور نرسز کو ہی نہیں بلکہ اساتذۂ  طب  کو بھی  پیشہ ورانہ تربیت دی  جاتی ہے۔تاوقتِ تحریراس   یونیورسٹی نے دنیا بھر کے 19  ہزار سے زائد ڈگریاں ،ڈپلومہ اور اسناد  جاری کیں جن میں سے 2 تہائی کی وصول کنندہ خواتین ہیں۔صرف رواں برس 777 طلبہ و طالبات پرنسس  زہرا  آغا خان کی زیرِ صدارت کانووکیشن سے فارغ التحصیل ہوئے۔

مشرقی افریقہ اور جنوبی ایشیا میں کم و بیش 20 لاکھ مریضوں کا سالانہ بنیادوں پر کیا گیا علاج معالجہ اس کے علاوہ ہے۔ حتیٰ  کہ  پاکستان کے 60 نرسنگ کالجز میں سے 52 کی قیادت آغا خان یونیورسٹی سے  نرسنگ   کی تعلیم   حاصل کرکے جانے والے  ہونہارافراد  نےسنبھالی ہوئی ہے  جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آغا خان یونیورسٹی   سے فارغ التحصیل افراد  علمِ طب  کے  اُس اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ جہاں وہ نہ صرف اپنے ملک بلکہ کئی دیگر ممالک میں قیادت کی ذمہ داری سنبھال سکتے ہیں،  جو بذاتِ خود کسی اعزاز سے کم نہیں۔

مجموعی طور پر اے کے ڈی این کے تمام ادارے ضرورت مند لوگوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ان 10 اداروں کے پروگراموں  میں مختلف  انداز  کے پراجیکٹس سرانجام دئیے جاتے ہیں جن کا دائرہ معیشت، ثقافتی ، معاشی ، تعلیمی ، طبی ، دیہی خدمات ، معاشرت، پیشہ ورانہ تربیت  اور صنفی مساوات تک پھیلا ہوا ہے۔

بنیادی طور پر آغا خان یونیورسٹی غیر سرکاری و خودمختار یونیورسٹی ہے جو تعلیم و تحقیق اور عوام کی خدمت جیسے اقدامات کے ذریعے انسانی فلاح و بہبود کے  لائحۂ عمل پر کاربند ہے۔ کراچی  سے ابتدا کرنےوالی اس  یونیورسٹی  کی  خدمات کا دائرہ کار  اب افریقہ، کینیا، افغانستان، برطانیہ، تنزانیہ اور  یوگنڈا میں بھی پھیل چکا ہے۔ 

یونیورسٹی میں تدریسی ہسپتال، طبی سائنسز، نرسنگ اسکول، میڈیکل کالج اوردنیائے اسلام میں منفرد   انسٹیٹیوٹ برائے مسلم سویلائزیشنز  کے تحت اعلیٰ معیار کی درس و تدریس کی جاتی ہے۔ یونیورسٹی کی داخلہ پالیسی غیر متعصبانہ اور قابلیت پر مبنی ہے جس سے مستقبل کیلئے ایسے  طبی رہنما اور مفکر پیدا ہوتے رہیں  گے جو اپنی اخلاقیات اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر عوام کے  اہم مسائل حل  کرنے میں اپنی کوششیں اور کاوشیں جاری رکھیں گے۔ حد تو یہ ہے کہ امتحانی مقابلے میں  پسماندہ طبقے  سے تعلق رکھنے والے کئی  بچے کامیابی حاصل کر لیتے ہیں اور  معاشرے کے بہت آسودہ طبقے  سے یونیورسٹی آنے والے بہت سے بچے  ناکام  بھی ہوجاتے ہیں یعنی اس تدریسی ادارے میں صرف اور صرف میرٹ کا ہی بول بالا ہے جہاں کوئی طبقاتی تفریق نہیں اور نہ ہی دباؤ کام کرتا ہے۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ  داخلہ ملنے کے بعد یہ یونیورسٹی  طلبہ  کے مالی حالات  کا امتیاز بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے طلبہ و طالبات میں فرق  نہیں کرتی اور وہ طلبہ و طالبات جو اپنے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے، آغا خان یونیورسٹی ان کی کلی یا جزوی طور پر مالی امداد بھی کرتی ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ عروس البلاد  شہر کراچی میں  1983ء  میں  وجود پانے والی آغا خان یونیورسٹی کے ایسے کون سے کارہائے نمایاں ہیں اور پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک میں پھیل جانے  والی یہ یونیورسٹی کس طرح لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب کر رہی ہے؟ اور یونیورسٹی کے نئے صدر ڈاکٹر سلیمان شہاب الدین نے مادرِ علمی کی موجودہ صلاحیت کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے اہم منصوبوں کو تقویت پہنچاتے ہوئے حتمی شکل دی ہے۔

آغا خان یونیورسٹی جس کے زیر اہتمام آغا خان ہسپتال اور آغا خان  صحت مراکز بھی چلائے جاتے ہیں، اس کی تمام تر آمدن میں سے ایک پیسہ بھی پاکستان سے باہر نہیں بھیجا جاتا اور جتنی بھی فیس حاصل ہوتی ہے  اسے اسی یونیورسٹی   و  ہسپتال کی تعمیر و ترقی اور تحقیق و تصنیف   کے ساتھ ساتھ رنگ ، نسل و مذہب  کا  امتیاز  کیے بغیر  مریضوں کی فلاح و بہبود اور دیگر پروگراموں  میں خرچ کیا جاتا ہے۔

وہ مریض جو علاج کے اخراجات کی استطاعت نہیں رکھتے، ان کیلئے خصوصی سوسائٹی  قائم کی گئی ہے اور معیار پرپورا  اترنے والے مریضوں کے  اخراجات درجہ بہ درجہ برداشت کیے جاتے ہیں۔

آغا خان یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ  تمام صوبوں اور گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے 130 شہروں میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔پاکستان سے تعلق رکھنےوالے  ہونہار طلبہ و طالبات جو آغا خان میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہوئے، ان کی تعداد اب تک  12 ہزار سے زائد ہے جن میں سے 2022ء کے بیچ میں شامل 750طلبہ وطالبات کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔یہاں یہ بیان بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ آغا خان یونیورسٹی سے فارغ التحصیل 60فیصد طلبہ و طالبات  وطنِ عزیز  سے باہر نہیں جاتے بلکہ جذبۂ خدمت سے سرشار  اپنے ہی وطن  میں ہی  ر ہ  کر  خدمات سرانجام دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ یونیورسٹی  تقریباً 13 ہزار ملازمین  کو بھی روزگار کے مواقع فراہم کررہی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آغا خان یونیورسٹی نے تیزی سےا یک عالمی یونیورسٹی کا درجہ اختیار کیا جہاں پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک سے آنے والے  طلبہ نہ صرف کراچی میں زیر تعلیم ہیں بلکہ یونیورسٹی پاکستان اور دیگر بیرونی ممالک میں ڈگری پروگرام بھی چلاتی ہے۔ آغا خان یونیورسٹی شام اور  افغانستان  کے اساتذہ اور نرسوں کو تکنیکی   معاونت بھی فراہم کرتی ہے۔

ماضی میں آغا خان یونیورسٹی نے بے شمار اعزازات اپنے نام کیے۔ 1988 میں آغا خان یونیورسٹی نے پہلی بار رجسٹرڈ نرسز کیلئے  بیچلر آف سائنس اِن نرسنگ پروگرام پیش کیا۔ 1993 میں آغا خان یونیورسٹی وہ پہلی نجی یونیورسٹی  قرار دی گئی  جس نے تعلیمی ترقی کے انسٹیٹیوٹ کاآغاز کیا۔ 2001ء میں ماسٹر آف سائنس اِن نرسنگ کی ڈگری پہلی بار متعارف کرائی گئی ، بعد ازاں  یہاں  پی ایچ ڈی کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا۔2003 میں ملک کا پہلا نجی اور بین الاقوامی معیار کا امتحانی بورڈ  قائم کیا گیا۔

سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف کے ہزاروں افراد کو تربیت فراہم کر کے ان کی صلاحیتوں کو نکھارا۔ کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران آغا خان یونیورسٹی ہسپتال نے 4 ہزار 500تشویشناک مریضوں کاعلاج کیا۔ 3 لاکھ 79 ہزار افراد کا کورونا ٹیسٹ کیا اور کورونا سے بچاؤ کیلئے 59 ہزار افراد کو ویکسین لگائی۔ کورونا کے خلاف عوام میں بیداری اور شعور کو فروغ دیا۔

گزشتہ برس پاکستان میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔ اس موقعے پر آغا خان یونیورسٹی نے مصیبت میں گھرے تقریباً 3لاکھ سیلاب زدگان کیلئے  ان کے اپنے علاقوں میں طبی سہولیات مہیا کیں۔

خواتین کے حقوق کے حوالے سے آغا خان یونیورسٹی  کی خدمات قابلِ قدر رہیں۔ آغا خان یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اسٹوڈنٹس میں سے 57 فیصد خواتین ہیں۔ فیکلٹی ممبران میں 51 فیصد، ملازمین میں سے 39 فیصد اور منیجرز میں سے 35 فیصد خواتین ہیں۔

آغا خان یونیورسٹی کی تاریخ  دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کرنے والی   مثالی بصیرت کی کہانی ہے  جو منزل کے حصول کی خاطر   بے پناہ  مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے  بھی ثابت قدمی  سے کامیابی کی  جانب غیر متزلزل انداز میں   رواں دواں ہے  جس نے  لاکھوں افراد کی زندگیوں کو علم کی روشنی اور فضیلت سے منورکرنے کا سلسلہ جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔

محترم جناب آغا خان کے تمام کارہائے نمایاں کی سمت یہی ہے کہ معاشی و معاشرتی ناہمواریوں کا شکار انسانوں کے دکھ درد کا مداوا کس طرح کیا جائے، کئی اعتبار سے آغا خان کے سائے تلے یہ 10  کلیدی ادارے بیشتر ممالک کو ایک ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں  جو کسی نسخۂ کیمیا سے کم نہیں   جبکہ یہ ادارے  دنیا کے جدید ترین اصولوں اور  علوم  کو استعمال کرتے ہوئے  چلائے جاتے ہیں جس سے معاشرتی تفریق کا شکار افراد  اپنے مستقبل کی نئی راہیں ہموار کرکے معاشرے میں اپنا اپنا نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

اگر دنیا کےکم ترقی یافتہ  ممالک بالخصوص پسماندگی کا شکار اقوام   ان سنہرے اصولوں کو اپنے  متعلقہ اداروں کیلئے اپنائیں تو یقینا ً ان ممالک  کی کثیر التعداد آبادی استفادہ حاصل کرتے ہوئے اپنی اپنی قوموں کی ترقی  و خوشحالی میں اہم اور کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔

اگر پاکستان کی مثال ہی سامنے رکھئے تو یہاں حال ہی میں کورونا جیسی عالمی وبا پھیلی جو ملک بھر میں بڑے جانی و مالی نقصانات کا باعث بنی۔ اس دوران حکومت نے آغا خان یونیورسٹی سے بھرپور استفادہ حاصل کرتے ہوئے دیگر شعبہ جات کے علاوہ کورونا ویکسین  پر تحقیق کے ساتھ ساتھ کورونا کے مرض میں مبتلا اور موت و زیست کی کشاکش سے دوچار مریضوں کے طریقہ علاج کی کھوج کی، جسے حکومت کا پائلٹ پراجیکٹ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

Related Posts