انسانیت کہاں ہے؟ غزہ میں 72 بچوں سمیت 919 فلسطینیوں کی بھوک سے شہادت کی المناک داستان

مقبول خبریں

کالمز

Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایک اداس فلسطینی بچہ تباہ شدہ گھر کے بچے کھچے سامان پر
فوٹو یونیسیف

آج غزہ کی 4 سالہ معصوم بچی رزان ابو زاہر بھوک اور غذائی قلت کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئی۔ اسے 23 جون کو شدید غذائی کمی کی حالت میں اسپتال لایا گیا تھا۔ وہ 27 دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں ایڑیاں رگڑتی رہی، مگر ظلم کی سیاہ رات ختم نہ ہوئی۔

رزان ابوزاہر دیر البلح کے شهداء الأقصى اسپتال میں 20 جولائی کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملی۔ اسی طرح 3 ماہ کے یحییٰ فادی النجار خانیونس کے ناصر اسپتال میں خوراک اور دودھ کی کمی کے باعث انتقال کر گیا۔ طبی ذرائع کے مطابق بچے اسپتال تک پہنچنے سے پہلے ہی نازک حالت میں تھے اور موت نے انہیں گود میں لے لیا۔

یہ صرف دو بچے نہیں، بلکہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں بھوک 19 معصوم جانیں نگل چکی ہے۔ یوں بھوک کے باعث زندگی کی بازی ہارنے والوں کی تعداد 919 ہوگئی۔ جن میں رزان اور یحییٰ سمیت 72 بچے بھی شامل ہیں۔ غزہ میں موت کے ہزار چہرے ہیں، وہ اپنی تمام انواع و اقسام کے ساتھ موت کھولے دندنا رہی ہے، مگر کئی دن تک لقمے کی تلاش میں مارے مارے پھرتے موت کے بے رحم پنجوں کی گرفت میں آنے والوں کی تکلیف سب سے سوا ہے۔

زمین پر اس وقت کچھ نہیں سوائے بھوک کے۔ آسمان سے کچھ نہیں برستا سوائے آگ کے اور یوں درد، تقدیر کے لکھے پر جمع ہو چکا ہے: ایک ایسی قوم جو دو آتشہ ہلاکت کا شکار ہے: خوف اور فاقہ۔ عالمی اداروں اور تنظیموں، خاص طور پر یونیسیف کی جانب سے مسلسل انتباہات جارکی کی جاچکی ہیں کہ تقریباً پانچ لاکھ فلسطینی ایسے ہیں جو قحط کے آخری اور ہولناک درجے (سطحِ پنجم) تک پہنچ چکے ہیں، جس کے بعد مرنا یقینی ہوجاتا ہے۔

الجزیرہ کے نامہ نگار انس الشریف، جو دو سال سے غزہ کی آواز تھے، جنہوں نے دل اور پیٹ دونوں پر پتھر باندھ رکھے تھے، اب روتے ہوئے یہ فریاد کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ ہم بھوک سے لڑکھڑا رہے ہیں۔ مگر سانحہ اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جب ہم جانتے ہیں کہ یہ بھوکا مرتا ہوا شہر دو ارب مسلمانوں کا حصہ ہے اور ان میں سے 400 ملین وہ ہیں جو اس کے ہم مذہب، ہم زبان اور ہم تہذیب ہیں، مگر پھر بھی غزہ تنہا ہے، صرف مزاحمت، آگ اور فاقہ اس کے حصے میں ہیں۔ غزہ کے بچے، جو جسمانی طور پر کمزور، اور صبر کے دامن میں سب سے چھوٹے ہوتے ہیں، بھوک کا پہلا اور سب سے مظلوم شکار بن چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارۂ اطفال (یونیسف) کے مطابق 71 ہزار سے زیادہ بچے غزہ میں فوری موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کے چہروں پر صرف ایک نقش ابھرا ہے فاقہ زدگی۔ ان کے جسم جیسے خالی خول بن چکے ہیں، ابھری ہوئی پسلیاں، ہڈیوں سے لٹکتی کھال اور وہ آنکھیں جن سے آنسو نہیں، صرف موت جھانکتی ہے۔

یونیسف کے مطابق 17,000 مائیں بدترین غذائی قلت کا شکار ہیں، جنہیں فوری طبی امداد نہ ملی، تو یہ بھی اعداد کے بجائے صرف یادگاریں بن جائیں گی۔ غزہ مکمل بھوک کے محاصرے میں ہے۔ یونیسف کی گھنٹی بج رہی ہے۔ وہ خبردار کر رہا ہے کہ اگر عسکری کارروائیاں، مکمل محاصرہ اور بنیادی رسد کی قلت جاری رہی، تو خوراک کی عدم دستیابی، شدید غذائی قلت اور اموات اگلے چند مہینوں میں قحط کی سطح سے بھی آگے نکل جائیں گی۔ اس وقت غزہ کے بازاروں میں اشیاء خورونوش تقریباً ختم ہوچکی ہیں۔ جو تھوڑا بہت سامان باقی ہے، اس کی قیمت آسمانوں کو کراس کرچکی ہے۔ اندازہ لگا لیجئے کہ آج جو چند ایک چیزیں دستیاب ہیں، ان کی قیمت حسب ذیل ہے:
آٹا: 150 ڈالر یعنی 42000 روپے کلو
چاول: 80 ڈالر یعنی 22400 روپے کلو
دال: 50 ڈالر یعنی 14000 روپے کلو
چھولے: 45 ڈالر یعنی 12600 روپے کلو
وزارت صحت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ بچے کیمروں کے سامنے دم توڑ رہے ہیں، لیکن دنیا کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ موجودہ صورتحال “قحط کے بدترین درجے” تک جا پہنچی ہے، جبکہ دو ملین سے زائد انسان فاقوں پر مجبور ہیں۔

صحت کے عملے نے بتایا ہے کہ اکثر اسپتالوں میں ڈاکٹروں، مریضوں، اور عملے نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔ طبی سہولیات کی بندش سے نہ صرف نظام صحت زمین بوس ہو چکا ہے بلکہ زندہ زخمیوں کی بقا بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ وزارت صحت نے دنیا سے فوری طبی اور غذائی امداد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا نے غزہ کے بھوکے بچوں کی چیخیں سننے سے انکار کر دیا ہے۔

غزہ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے اتحاد “شبكة المنظمات الأهلية” نے بھی ایک ہنگامی اپیل جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیر البلح کے ایک پناہ گزین مرکز میں 100 معذور افراد انتہائی ابتر حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں نہ دوا ہے نہ خوراک۔ اس کے ساتھ آج غزہ میں شہداء اور زخمیوں کی مجموعی تعداد بھی 2 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران دجالی فوج کے وحشیانہ حملوں میں 134 فلسطینی شہید ہوئے، جبکہ 1,155 افراد شدید زخمی ہوئے۔ ان میں سے 99 شہداء ایسے ہیں جو انسانی امداد یا روزی کی تلاش میں نکلے تھے۔ مگر لاش بن کر لوٹے۔ اب تک ایسے شہدا کی تعداد 1021 اور زخمیوں کی تعداد 6511 ہوچکی ہے۔ 18 مارچ سے اب تک کم از کم 8196 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ زخمیوں کی تعداد 30094 ہے۔
7 اکتوبر 2023ء سے لے کر اب تک صہیونی فوج 59029 فلسطینیوں کو شہید اور 142135 افراد کو زخمی کرچکی ہے۔

Related Posts